بجٹ 2021-22 مشیرِ خزانہ شوکت ترین نے پیش کیا۔ مکمل بجٹ یہاں دیکھا جا سکتا ہے:
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین قومی اسمبلی میں مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش کیا۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ تقریر کا آغاز ہوتے ہی اپوزیشن بینچوں سے شور شرابہ شروع ہوگیا اور نعرے بازی کی گئی۔
بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا یہ تیسرا بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ہم معیشت کے بیڑے کو کئی طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لے آئے ہیں، مشکلات تو درپیش ہیں مگر معیشت کو مستحکم بنیاد فراہم کردی گئی ہے۔
بجٹ تقریر پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں ورثے میں 20 ارب ڈالر کا کرنٹ ڈالر کا تاریخ خسارہ ملا، 25 ارب ڈالر کی درآمدات تھیں، اس عرصے کے دوران برآمدات میں منفی 0.4 فیصد جبکہ درآمدات کا اضافہ 100 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شرح سود کو مصںوعی طور پر کم رکھا گیا تھا اور تمام قرضے اسٹیٹ بینک سے لیے گئے جس کی وجہ سے مالیاتی حجم میں شدید عدم توازن پیدا ہوا، اسٹیٹ بینک سے قرضوں کا حجم 70 کھرب روپے کی خطرناک سطح تک پہنچ گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6 فیصد تھا جو گزشتہ 5 سالوں میں سب سے زیادہ تھا، بیرونی زرِمبادلہ کے ذخائر بڑی حد تک قرضے لے کر بڑھائے گئے تھے جو جون 2013 میں 6 ارب ڈالر تھے اور 2016 کے آخر میں بڑھتے ہوئے 20 ارب ڈالر ہوگئے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری 2 سالوں میں بڑی تیزی سے کم ہوکر صرف 10 ارب ڈالر رہ گئے تھے، اس دور میں بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مسلم لیگ کے آخری دو سال میں جون 2018 تک 10 ملین ڈالر رہ گئے اس دور میں بیرونی قرضے میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تباہی کی داستان ہے جس کے بعد معشیت کی بحالی کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوگی۔ اس کے باوجود 5.5 شرح نمو کا ڈھول پیٹا گیا اور بلا سوچے سمجھے قرضے لیے گئے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ ساری ادائیگیاں ہمیں کرنی پڑیں ورنہ ملک ڈیفالٹ کرجاتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم حقیقی منظر پیش کررہے ہیں، قبرستان میں کھڑے ہو کر قبروں کو کھودنے کے بجائے قوم کو روشنی کی طرف لے جایا جائے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے معیشت کی بحالی میں تھوڑا وقت لگا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت مشکل فیصلے میں خوفزدہ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے 20 ارب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اپریل 2019 کو 800 ملین ڈالر کا سرپلس میں تبدیل کردیا گیا۔
بجٹ تقریر میں وزیر خرانہ کا کہنا ہے کہ یکم جولائی سے تمام وفاقی ملازمین کو 10% ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا جائے گا،وفاقی ملازمین کی پنشنز میں 10% اضافہ کیا جائے گا، گریڈ 1 سے 5 تک کے ملازمین کو integrtated Allowance کی مد میں 450, 900 روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔
بجٹ کے اندر کم از کم اجرت 20000 روپے مختص کی گئ ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا۔ بینکنگ ٹرنزیکشنز سے ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔