نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت واپس ملنے پر مذاکرات بہتر ہوسکتے ہیں۔ نواز شریف ہی پاکستان میں سیاسی ماحول بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کرسکتے ہیں جب کہ ملک کے موجودہ وزیر اعظم اور حکمران جماعت کے صدر شہباز شریف کے پاس ’کچھ‘ بھی نہیں ہے۔رانا ثنا اللہ کی جانب سے پی ٹی آئی سے بات کرنے کا بیان درست سمت میں ایک قدم ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی جانب سے ایک دن بیان آتا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگادیں۔ اگلے دن بیان ہوتا کہ بات چیت کرلیں۔ سیاسی جماعتیں بات چیت نہیں کریں گی تو کیا کریں گی، اسلحہ تو نہیں اٹھائیں گی۔یہ کہنا تھا سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا۔
اسلام آباد کچہری میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئےفواد چوہدری نے کہا کہ شہباز شریف کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ ن لیگ کی صدارت نواز شریف کو کرنی چاہیے۔نواز شریف کو پارٹی صدارت واپس ملنے پر مذاکرات بہتر ہوسکتے ہیں۔ ن لیگ کی اصل سیاست ہی نواز شریف کی ہے۔ شہباز شریف کے پاس تو کچھ نہیں۔ نوازشریف 1985 سے سیاست میں ہیں اور وہی ملک میں سیاسی ماحول بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بات چیت کرنی تو اس کے لیے ایک ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر اعجاز چودھری ایک سال سے جیل میں ہیں۔ ان کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا جارہا۔ میں چھوٹی چھوٹی باتیں بتا رہا ہوں جس سے اعتماد کی فضا قائم کی جاسکتی ہے۔ اعتماد کو فروغ دیا جائے تاکہ بات چیت کی جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق گورنر عمر چیمہ، محمود الرشید، یاسمین راشد، عالیہ حمزہ او صنم جاوید وہ لوگ ہیں جن کو حکومت فوری ریلیف دے سکتی ہے اور دینا چاہیے۔ حکومت جو ریلیف دے سکتی فوری دینا چاہیے۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی رہائی یا ڈیل کے لیے تو کوئی بات چیت نہیں کرنی۔ بانی پی ٹی آئی کی بات چیت کا محور عوام ہوں گے۔ اس کے علاوہ کسی کے لیے بات نہیں کریں گے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ رانا ثنا اللہ کی جانب سے پی ٹی آئی سے بات کرنے کا بیان درست سمت میں ایک قدم ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی جانب سے ایک دن بیان آتا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگادیں۔ اگلے دن بیان ہوتا کہ بات چیت کرلیں۔ سیاسی جماعتیں بات چیت نہیں کریں گی تو کیا کریں گی، اسلحہ تو نہیں اٹھائیں گی۔ میرے خیال سے رولنگ پارٹیاں واضع کریں کہ کیا چاہتی ہیں۔ واضع کریں کہ بات چیت کرنی یا پابندی لگوانی ہے۔ اس کے مطابق ردعمل آئے گا۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ اعتماد کی فضا بحالی کے لیے حکومت کو بھی تھوڑے بہت اقدامات اٹھانے چاہیں۔ اگر ہر مرتبہ یہ کہا جائے کہ ہم یہ کر دیں گے، وہ کردیں گے، اٹھالیں گے تو ایسے بات کیسے ہوگی؟ اہم یہ ہے کہ سیاسی رہنماؤں کے پاس اختیار ہویا نہ ہو لیکن ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی آج کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ سعودی ولی عہد بھی اسی وجہ سے پاکستان نہیں آ رہے۔ اس کی وجوہات کا اشارہ بھی یہی ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ماحول پیدا کرے تاکہ ہم بات چیت کی جانب بڑھ سکیں۔اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی بڑی پارٹی ہے۔ اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔ میرے خیال سے ہماری پی ٹی آئی لاؤڈ بھی بہت ہے۔ پی ٹی آئی میں شور بہت زیادہ مچ جاتا ہے۔ 2016 سے دیکھ رہا لوگ اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی یہ لڑائی ہار گیا تو پاکستان ہار جائے گا۔ پی ٹی آئی کے حصہ سے متعلق بات غیر ضروری ہے۔ ہر پاکستانی جس کو پاکستان سے ہمدردی ہے اور ملکی بالادستی چاہتا اسے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ بانی پی ٹی آئی ہارا تو ہم افریقہ کا کوئی ملک بن جائیں گے جہاں آئین و قانون کی کوئی بات ہی نہیں ہوتی۔