فرلانگ مارچ، پاٹے خان کی ٹانگوں پر بیٹنگ پیڈز اور مجبور عوام!

فرلانگ مارچ، پاٹے خان کی ٹانگوں پر بیٹنگ پیڈز اور مجبور عوام!
وطن عزیز شکم مادر ہی سے نازک صورت حال میں ہے۔ پچھلے 75 برس سے انتہائی نگہداشت وارڈ میں پڑا مسلسل بھاری بھرکم ذمہ داریاں نبھا رہا ہے جیسے امت مسلمہ (جس کے دور دور تک کوئی آثار نہیں ہیں) کا قائد ہے۔ آدھا وجود 71 میں گنوا چکا۔ بچے کھچے میں آدھے سے زائد فالج زدہ ہے، بلوچستان اور فرنٹیئر میں رٹ ہی نہیں ہے! باقی کا حصہ زخموں سے چُور ہے مثلاً اندرون سندھ، کراچی وغیرہ۔ جو اعضا اس سے پہلے جیسے تیسے گھسٹ رہے تھے وہ بھی اب پاکستان انتشار پارٹی کے کارن سُن ہو چکے ہیں مثلاً پنجاب وغیرہ۔

فرلانگ مارچ نامی وائرس اب دھیرے دھیرے اسلام آباد، فیض آباد اور آس پاس کے علاقوں میں پھیلنا شروع ہو گیا ہے۔ موجودہ حالات 71 اور 77 سے کہیں زیادہ گھمبیر ہیں کیونکہ ہر گھنٹے میں لاکھوں سوشل میڈیا بےبیز شناختی کارڈز بنوا رہے ہیں۔ ہالی ووڈ بالی ووڈ کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ ان کے دو بلاک بسٹر آئے؛ ایک 'ارشد شریف کی امی' اور دوسری 'پاٹے خان کی ٹانگ کی شہہ رگ میں گولیاں'۔ پہلی نے منٹوں میں خوب بزنس کیا۔ پر جیسے ہی ارشد کی حقیقی والدہ سوشل میڈیا پر آئیں، بھانڈہ پھوٹ گیا اور فلم فلاپ! چند اور فلمیں فلاپ ہوئیں مثلاً 'مسٹر اینڈ مسز اعظم سواتی ان کوئٹہ جوڈیشل لاجز' اور 'پرویز رشید کا کھڑاک'۔ وسیع پیمانے پر لعن طعن ہوئی کہ اتنی گھٹیا ایڈیٹنگ تو بچے بھی نہیں کرتے۔

پاٹے خان، انتشار پارٹی کے ٹھاہ مجبور قریشی اور فولاد چودھری ایسے لوٹے اور میڈیا بےبیز وہ مُلّا بن گئے ہیں جن کے بیچ مرغی حرام ہو چکی ہے۔ ہر ایک کے پاس نومبر 3 (بدنصیب دن جب پاٹے شہادت کے درجے پر فائز ہوتے ہوتے رہ گیا) پر اظہر من الشمس حقائق موجود ہیں۔ پاٹے کے بانکوں کے حقائق ایک دوسرے کو جھٹلاتے ہیں بالکل اس طرح جیسے مسلمانوں کے تمام فرقے ایک دوسرے کو کافر گردانتے ہیں۔ حالانکہ بانکوں کی فوج متحد ہے۔ رات دن اکٹھے کام کرتی ہے اور اتفاق رائے، انتہائی احتیاط اور ذمہ داری سے ساری فلم پاٹے سے سنسر بھی کرواتی ہے۔ تب جا کر مہینوں میں ایک وڈیو بنتی ہے۔ نومبر 3 والی فلم بھی ان ہی مراحل سے گزری۔ ماننا ہی پڑا کہ سٹریٹ تھئیٹر کی دنیا میں اس سے بڑا شاہکار پہلے کبھی آیا، نہ ہی آئندہ آوے گا۔ چند مناظر دیکھیں ذرا:

منظر: وزیر آباد کی ایک سڑک۔ پاٹے خان کنٹینر پر۔ عوام کا جم غفیر۔ گولیوں کی بوچھاڑ۔ پاٹے بری طرح گھائل۔ زندگی موت کی کشمکش۔ بازو میں ہی دنیا کا بہترین ہسپتال جان ہاپکنز۔ بے بیز وہاں لے جا رہے ہیں۔ پاٹے کہتا ہے اسے صرف حکیم یا ہومیو پیتھی سوٹ کرتی ہے۔ بہترین ہومیو ہسپتال پھوکٹ سالم نزدیک ہی ہے۔ لاہور میں۔۔۔ صرف تین گھنٹے کی ڈرائیو۔ خان میڈیکو لیگل کرانے سے انکاری۔ بے بیز سمجھاتے ہیں کروا لیں ورنہ ایف آئی آر درج نہ ہو گی۔ پاٹے کہتا ہے یہی تو میں چاہتا ہوں! اسی پر تو کھیلنا ہے!

اگلا منظر: پھوکٹ سالم کا ہومیو پیتھک سرجن پاٹے خان کا آپریشن کر رہا ہے۔ جان بچ جاتی ہے۔

اس سے اگلا منظر: پھوکٹ سالم کے بعد بےبیز اسے جنات ہسپتال (جناح کا فیورٹ) لے جاتے ہیں۔ حکیم پھکی اور پڑیا دے دیتا ہے۔ اس دوران گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ پھوکٹ سالم کی رپورٹ کہتی ہے کہ ٹانگ میں گولی نہیں، شیل کے خفیف ذرے لگے ہیں مگر پٹی کے بجائے ٹانگوں پر بیٹنگ پیڈز باندھ دیتے ہیں۔ جنات والے حکیم کی رپورٹ کہتی ہے کہ دو گولیاں لگی ہیں!

ایک اور منظر: پاٹے خان پھوکٹ سالم سے براہ راست پریس کانفرنس کھیل رہا ہے۔ ایک ٹانگ پر بیٹنگ پیڈ ہے دوسری پر نہیں۔ دوسری پریس کانفرنس میں دونوں پر پہنے ہوئے ہے۔ تیسری میں ایک پر سے اتار دیتا ہے!

منظر در منظر: پاٹے سی این این کو بتا رہا ہے تین گولیاں لگیں! سی این این کہتا ہے چولاں نہ مار! سوشل میڈیا خوب بھد اڑا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ انتشار پارٹی کے فتنے میں پھوٹ پڑے ڈاکٹر یاسمین پھوکٹ اور جنات کی فساد انگیز رپورٹیں گھر لے آتی ہیں یہ کہہ کر کہ وہ ہومیو پیتھی اور حکمت کے علاوہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ہیں۔ چائے کی طلب ہوتی ہے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ ہے۔ دونوں رپورٹیں چولہے کے کام آتی ہیں اور گرما گرم چائے تیار۔ یوں انتشار پارٹی کی 'امت فتنہ و فساد و گالم گلوچ' پھر سے متحد ہو جاتی ہے۔

پاٹے کا جانی دشمن ڈیزل بھی تعریف کیے بنا نہیں رہ پاتا:
'پاٹے خان ایسی اداکاری شاہ رخ اور سلمان بھی نہیں کر سکتے!'

ملالہ کی کنپٹی میں ایک گولی گھسی، حامد میر کے پیٹ میں چھے۔ دونوں کئی دن زندگی اور موت کے بیچ جھولتے رہے۔ پھر بھی پی ٹی آئی کی ممبر قومی اسمبلی مسرت زیب نے کہا کہ یہ سب ڈرامہ ہے۔

پی ٹی آئی کا پالتو اینکر ارشد شریف قوم کو چلّا چلّا کر بتاتا رہا کہ حامد، ابصار عالم اور اسد طور یورپ میں سیاسی پناہ کے لئے حملے والے ڈرامے رچاتے ہیں۔

بے نظیر بھٹو پر کراچی میں خودکش حملہ ہوتا ہے۔ 180 بندے جان سے جاتے ہیں اور پاٹے لندن کے ایک مشہور اخبار ڈیلی ٹیلی گراف میں لکھتا ہے محترمہ اپنے اوپر حملے کی خود ذمہ دار تھیں!

ٹھاہ مجبور قریشی آئی جی پنجاب کی وردی پر لعنت بھیج رہا ہے کیونکہ مرضی کی ایف آئی آر درج نہ ہوئی۔ آئی جی کہتا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ درج نہیں کرنے دیتا۔ وزیر اعلیٰ پر تو بس چلا نہیں ہو سکی۔ لعن طعن ہوئی وردی پر حالانکہ حکومت لعنت بھیجنے والوں کی اپنی ہے۔ آئی جی نے بے نقاب کیا چودھری کو اور کرسی چھوڑ دی۔

فولاد چودھری اکسا رہا ہے کہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ ہر شے جلا دو۔ اسلام آباد ایکسپریس وے پر گھنے درخت جل رہے ہیں۔ کوئی مذہب درختوں کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا، بھلے حالت جنگ ہی ہو!

لوگوں کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں نذر آتش کی جا رہی ہیں۔ بیمار ایمبولینس میں دم توڑ رہے ہیں۔ خواتین گاڑیوں اور رکشوں میں زچگی کے عمل سے گزر رہی ہیں کیونکہ راستے رکاوٹوں اور شعلے بھڑکتے ٹائروں سے بند ہیں۔ کاروبار حیات مکمل ٹھپ!

لندن کے لونڈے 24 گھنٹے ایوان فیلڈ میں گنجے چور، نانی چور کھیلتے ہیں۔ اس شور شرابے نے ایک برطانوی لڑکی کو رلا دیا۔ بیچاری کہہ رہی ہے ایک اتوار کا دن ہوتا ہے آرام کا۔ وہ بھی یہ غارت کر دیتے ہیں!

ایک گوری بتا بھی رہی ہے کہ یہ سکول ہے شور نہ مچاؤ، پر یہ نہیں سنتے!

پاٹے یہ نوشتہ دیوار پڑھنے سے قاصر ہے کیونکہ دن کے علاوہ رات میں بھی کالے شیشے پہنتا ہے:

چودھری پرویز الہیٰ گجراتی نہیں پنڈی وال ہے۔ مشرف کو سو بار وردی میں صدر دیکھنا چاہتا تھا۔ اب کہتا ہے؛ 'اوپر اللہ نیچے باجوہ'۔ پاٹے کی پیٹھ میں خنجر گھونپ چکا ہے۔

فرلانگ مارچ مکمل ناکام ہو چکا! بلوائیوں کو اب گالیاں پڑنا شروع ہو چکی ہیں۔

ٹھاہ مجبور قریشی پاٹے کو باہر کروا کر خود کو کپتان کی جگہ دیکھنا چاہتا ہے، بھلے جتنے مرضی بوٹ پالش کرنے یا چاٹنے پڑیں۔

اور پھر ایک بات عوام کی سمجھ میں بھی آ چکی ہے۔ فرلانگ مارچ کہیں سے بھی پرامن نہیں، شیطانی مارچ ہے جس کا مقصد جمہوریت یا عوام کے حقوق نہیں بلکہ اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔ ملک اور اس کے شہری تباہ و برباد ہوتے ہیں تو ہونے دو۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔