Get Alerts

  'شاہد خاقان کی قیادت میں ن لیگ کا ایک دھڑا نواز شریف کی واپسی نہیں چاہتا'

پارٹی کے جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف واپس نہ آئیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر میاں صاحب گرفتار ہو گئے تو پارٹی پھنس جائے گی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی بادشاہت ختم ہو جائے گی کیونکہ اس وقت پارٹی کے پائلٹ وہی لوگ ہیں اور پارٹی کے تمام امور چلا رہے ہیں۔ میاں صاحب کے آنے سے انہیں نقصان ہو گا۔

  'شاہد خاقان کی قیادت میں ن لیگ کا ایک دھڑا نواز شریف کی واپسی نہیں چاہتا'

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف بالآخر پاکستان واپس آ رہے ہیں لیکن ان کی پارٹی میں ایک دھڑا ایسا ہے جو چاہتا ہے کہ نواز شریف واپس نہ آئیں۔ یہ دھڑا سمجھتا ہے کہ اگر نواز شریف واپس آتے ہیں تو پارٹی کا آخری کارڈ بھی ضائع ہو جائے گا۔ یہ رہنما کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح میاں صاحب کو واپس آنے سے روکیں۔ اس وقت پارٹی کے پائلٹ یہی لوگ ہیں اور پارٹی کے تمام امور چلا رہے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ نواز شریف کی واپسی سے ان کی بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چودھری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں جاوید چودھری نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ ایک دھڑے کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف اب بھی وطن واپس نہیں آتے تو پارٹی کا وجود ختم ہو جائے گا۔ اس سے پارٹی اور پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ پارٹی قیادت کے پاس ایک ہی کارڈ بچا ہے جو میاں صاحب خود ہیں کیونکہ پارٹی ان کی ہے۔ پارٹی نے باقی تمام کارڈز استعمال کر لیے ہیں اور اب صرف نواز شریف والا کارڈ بچا ہے، اس لیے انہیں ہر صورت واپس آنا چاہئیے۔ اگر نواز شریف اب بھی واپس نہیں آتے اور مشکل حالات کا سامنا نہیں کرتے تو پارٹی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔

دوسری جانب پارٹی میں ایک دھڑا ایسا ہے جس کا خیال ہے کہ نواز شریف کو ایسے ہی ملک واپس نہیں آنا چاہئیے۔ پارٹی کے پاس آخری کارڈ ہی بچا ہے، اس کارڈ کو طریقے سے استعمال کرنا چاہئیے۔ کیونکہ اگر یہ کارڈ بھی ضائع ہو گیا تو پارٹی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ اس دھڑے میں شاہد خاقان عباسی سب سے آگے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ نواز شریف ایک سزا یافتہ شخص ہیں اور انہیں اس طرح واپس نہیں آنا چاہئیے۔

صحافی کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر شاہد خاقان عباسی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ سیاست اخلاقیات کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور اگر کوئی شخص اخلاقی اعتبار سے پیچھے رہ جاتا ہے تو بالآخر سیاسی میدان میں بھی اسے ہار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا میاں نواز شریف کو صرف اقتدار اور سیاست کے لیے واپس نہیں آنا چاہئیے بلکہ اسلامی اور سیاسی اخلاقیات کو بھی ترجیح دینی چاہئیے۔ اس بات کا خیال سردست میاں صاحب اور ان کی فیملی دونوں نہیں کر رہے کیونکہ دونوں کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب کو ہر صورت واپس آنا چاہئیے۔

جاوید چودھری کے مطابق سوال یہ ہے کہ اگر صرف ان کا واپس آنا ہی اہمیت کا حامل ہے تو 1996، 2013، 2018 کے نواز شریف اور اب والے نواز شریف میں کیا فرق ہے؟ تب بھی میاں صاحب نے سمجھوتے کیے تھے جس کا نقصان ان کی سیاست، ن لیگ اور پاکستان کو ہوا۔ میاں صاحب کو کہیں نہ کہیں خود کو اخلاقی طور پر درست ثابت کرنا پڑے گا۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ راہداری ضمانت نہ لیں، وطن واپسی پر جیل جائیں اور اپنے خلاف موجود مقدمات کا سامنا کریں۔ پھر اگر عدلیہ انہیں اجازت دے دے تو وہ سیاست کریں، ورنہ انہیں ہمت اور مردانگی کے ساتھ جیل میں رہ کر مقدمات کا سامنا کرنا چاہئیے۔ اگر میاں صاحب ایسا کر جاتے ہیں تو پارٹی کو ایک نئی زندگی مل جائے گی۔ لیکن اگر میاں صاحب دبئی سے چارٹرڈ جہاز کے ذریعے واپس آتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ جلسہ کریں اور جلسے میں وہ قانون، انصاف، عدلیہ اور ججز پر تنقید کریں تو اس سے پارٹی کو شارٹ ٹرم فائدہ تو حاصل ہو جائے گا لیکن لانگ ٹرم کی جنگ پارٹی ہار جائے گی۔

پارٹی کے جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف واپس نہ آئیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر میاں صاحب گرفتار ہو گئے تو پارٹی پھنس جائے گی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی بادشاہت ختم ہو جائے گی کیونکہ اس وقت پارٹی کے پائلٹ وہی لوگ ہیں اور پارٹی کے تمام امور چلا رہے ہیں۔ میاں صاحب کے آنے سے انہیں نقصان ہو گا۔ وہ نہیں چاہتے کہ نواز شریف پاکستان آئیں۔ اس کے علاوہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ نواز شریف کو مائنس کر کے کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل ہو جائے، وہ پارٹی کو آگے لے کر چلیں اور اقتدار میں آئیں۔

دوسری وجہ نواز شریف کا بیانیہ ہے۔ کیونکہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مشکل وقت میں سمجھوتہ تو کر لیتے ہیں لیکن جیسے ہی حالات سازگار ہوتے ہیں، پوری قوت کے ساتھ پرانے مؤقف پر واپس آ جاتے ہیں جو 'اینٹی اسٹیبلشمنٹ' ہے۔ اس دھڑے کا خیال ہے کہ جب میاں صاحب واپس آ کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو لے کر چلیں گے تب اسٹیبلشمنٹ کے پاس دو آپشن ہوں گے؛ نواز شریف اور عمران خان۔ دھڑے کا کہنا ہے کہ میاں صاحب واپس آئیں گے تو وہ بولیں گے بھی اور جب وہ بولیں گے تو اسٹیبلشمنٹ ناراض ہو گی۔ اگر ایسا ہوا تو اس صورت میں اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان کے ساتھ ڈیل ہو جائے گی اور وہ دوبارہ پوری طاقت کے ساتھ اقتدار میں آ جائیں گے۔ اس کا اسٹیبلشمنٹ کو فائدہ ہو گا کیوںکہ خان صاحب عوام میں بہت پاپولر ہیں۔ اس صورت میں مسلم لیگ ن کی سیاست ختم ہو جائے گی۔

پارٹی میں اب دو طرح کی رائے ہے، ایک یہ کہ نواز شریف آئیں گے تو سیاست چلے گی اور دوسری رائے یہ ہے کہ وہ نہ آئیں کیونکہ اگر وہ آئے تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات شروع ہو جائیں گے۔ صحافی کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں نواز شریف کو آنا چاہئیے اور اگر وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو لے کر چلنا چاہتے ہیں تو سیاست کو بھول کر کھل کر اور ڈٹ کر اس بیانیے پر قائم رہیں۔ اس کے بعد خواہ ان کو اقتدار میں آنے کے لیے 5 سال لگیں لیکن وہ بھرپور طاقت کے ساتھ اقتدار میں آئیں گے۔ اس کے برعکس اگر وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو نہیں اپناتے تو اس بارے میں انہیں کھل کر بیان دینا چاہئیے کہ ان کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی اختلاف نہیں اور وہ پرانی باتوں کو بھول کر کھلے دل کے ساتھ سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف اپنی پرانی غلطیوں کا بھی اعتراف کریں اور فیصلہ کریں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو سیاسی لحاظ سے انہیں بہت فائدہ ہو گا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر عدم تحفظ کا احساس ختم ہو جائے گا۔