'ٹیسوری ہاؤس' میں ماضی کی خوشگوار یادوں کو ری پلے کیا جا رہا ہے؛ لوگوں کا ایک عرصے تک من بھاتا پروگرام ڈاکٹر نائیک سے سوال و جواب کا سیشن ہے کہ یکے بعد دیگرے ایک عام باپردہ لڑکی پلوشہ اور ایک سلیبریٹی ایکٹریس ڈاکٹر صاحب سے 'محرم' ہو کر سوال کرتی ہیں اور اپنے اپنے 'سٹیٹس' کا جواب پاتی ہیں۔ اور پھر حسب معمول یہ وائرل جواب سوشل میڈیا وارفیئر میں لبرلز اور مذہب پسندوں کے درمیان ایک کارگر ہتھیار بن کر بخوبی کام آتا ہے۔ ہتھیار کی قیمت کا اندازہ تو اس بات سے لگا لیں کہ اس کے بعد پلوشہ عامی سے سلیبریٹی اور یشما سلیبریٹی سے گویا عامی بن جاتی ہیں۔
بہرحال لبرلز اور اسلام پسندوں کی لڑائی موضوع نہیں ہے کہ دونوں گروہ اصل موضوع سے ہٹ کر ہر ایک چیز کو اپنے اپنے لشکر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے!
بظاہر باپردہ پلوشہ ڈاکٹر صاحب سے ان کی طبیعت کے مطابق ایک تیکھا سوال کرتی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر وہ بپھر جاتے ہیں اور کبھی سوال کو اور کبھی لڑکی کو ہی کوسنے لگتے ہیں۔ مانا کہ پلوشہ کے سوال میں یشما اور ذاکر والا سلیبریٹی ربط نہیں تھا لیکن ایک معمولی ٹیچر بھی سمجھ سکتا ہے کہ پلوشہ ایک مذہبی قدامت پسند معاشرے میں بچوں سے زیادتی جیسے بھیانک فعل کا جواز مانگ رہی تھی۔ ڈپٹ سے واضح تھا کہ وہ اس سوال کو غلط سمجھ رہے ہیں۔ اگر جواب دینے والا سوال کو غلط یا صحیح کے پیمانے پر رکھے گا تو اس کو جواب دینے کی مسند اعلیٰ پر بیٹھنے کا ذرا سا بھی اختیار نہیں کہ سوال صحیح غلط کی تعریف مٹا کر ہی کیا جاتا ہے۔
خیر سٹیج پر نائیک صاحب کی چڑچڑاتی ہوئی طبیعت کو اداکارہ یشما گل نے مائیک سنبھالتے ہی بشاش کر دیا کہ ڈاکٹر صاحب نے ان کا نام اور کام بھی کئی بار پوچھا۔ یشما نے پہلے تو تعریفوں کے پل باندھے کہ ان کو دہریت سے واپس لوٹانے میں ان کے لیکچرز کا بڑا ہاتھ ہے جس کو ڈاکٹر صاحب نے ایکٹنگ جیسے 'قبیح' فعل سے تائب ہونے پر بدل کر خوشی کا اظہار کیا۔ اور اس کے بعد وہی پرانے اور ہر اک کے من پسند 'قسمت' والے سوال پر ویری گڈ کہا اور اس پر بہت ہی طویل لیکچر دیا جس کو ایک عام سننے والا بھی کسی مذہبی واعظ سے کم سے کم دو سو بار سن چکا ہو گا۔ خود اس عامی نے بچپن میں یہ بیان شگفتہ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک سے ٹی وی پر سنا تھا جن کے جواب دینے کا انداز نائیک صاحب کے الٹ ہوتا تھا۔
ممکن ہے کہ واعظ نے سوال کو نہ سمجھا ہو یا یشما کی مثال سے ظاہر ہے کہ ان کو پاکستانی انگلش اور اردو سمجھنے میں شاید دقت ہوتی ہو۔ سب سے بڑھ کر وہ بھی انسان ہیں اور پی آئی اے نے تو بڑے بڑوں کو 'ہولا' کیا ہے تو مناظرہ ماسٹر ایئر لائن کی بے وقت کی 'اصول پسندی' سے اس وقت بھی چڑچڑی کیفیت میں ہوں۔ بے شک یہ تمام مارجنز ان کو دیے جا سکتے تھے لیکن انھوں نے خود اپنی ٹویٹ کے ذریعے اس پر بالائی چڑھا دی کہ سوال میں تکرار تھی اور لڑکی پٹھان تھی۔۔۔ ہیں جی!!
واعظ کے جوابوں میں جو تکرار چھپی ہے
پلوشہ کو پٹھان کہہ کر ہار چھپی ہے
سوچتا ہے کہ باتوں سے عقل سکھائے
خود ہی دیکھ لے، ہر بات میں غار چھپی ہے
حقیقت میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان آمد نے ایک بھونچال پیدا کیا ہوا ہے اور ہمارے پسندیدہ تماشوں سیاست اور مذہب کو ایک تازہ دم فیول فراہم کیا ہے۔ دیکھا جائے تو واعظ صاحب شروع سے ہی ایسی ضرورت پوری کرتے آ رہے ہیں۔
ذاکر صاحب کی اٹھان ہی نائن الیون واقعے کے بعد ہوئی تھی جب انھوں نے اسلامک کاوش سے گھر بیٹھے مجاہدوں اور دانتوں میں 'پیس ٹیدر' رکھی پڑھی لکھی کلاس کی میڈیائی ضرورت کو پورا کیا۔ سٹیج سے انھوں نے نئی صدی کے مطابق 'گوگل مارکہ' داعی ہونے کا ثبوت دیا جس پر مسلمان تو کیا غیر مسلم بھی عش عش کر اٹھے بلکہ ہمارے پسندیدہ ٹارگٹ ایک ملین تو اپنے سابقہ عقائد پر غش کھا بیٹھے اور ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
یہ ایک وقت تھا جس نے اپنی میعاد ممکن طور پر درست طریقے سے کی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ جو کہ حکمرانوں سے لے کر اکثر ماضی کے اسیر ہیں، نے اس اکیسویں صدی کی شروعات کی نئی اسلامی دعوت کم مناظرے کم ون مین شو سے ویسے ہی حظ اٹھانا چاہا کہ ڈاکٹر ذاکر کو باقاعدہ سٹیٹ گیسٹ بلاوہ دیا اور اس پر طرہ کہ ان سے ریٹائرمنٹ کے بعد پیس ٹی وی والی پرفارمنس کو کہا جس نے پیس کو پیس کر رکھ دیا۔۔