Get Alerts

ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بطور سرکاری مہمان پاکستان بلانا احمقانہ فیصلہ تھا

ذاکر نائیک نے اپنی شہرت کے عین مطابق پاکستان آ کر متنازعہ بیانات دیے۔ ہر فورم پر ذاکر نائیک نے سستی اور سطحی بیان بازی کی اور ثابت کیا کہ وہ عالم دین نہیں بلکہ شہرت اور دولت کا بھوکا ایک گھمنڈی اور بدتمیزی برپا کرنے والا کردار ہے۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بطور سرکاری مہمان پاکستان بلانا احمقانہ فیصلہ تھا

وطن عزیز پاکستان جن گھمبیر مسائل سے دوچار ہے ان میں مذہبی انتہاپسندی سب سے اہم ہے۔ پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی جاری ہے تو پنجاب میں مسیحی برادری کے گرجا گھروں پر حملے جاری ہیں۔ خیبر پختونخوا، بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتسان میں بھی حالات خراب ہیں۔ توہین رسالت کا الزام لگا کر کسی بھی بندے کو ہلاک کرنا اور اس کے گھر کو آگ لگانا معمولی سی بات ہے۔

اس طرح کے واقعات پچھلے چالیس پچاس سالوں سے جاری تھے مگر جب سے تحریک لبیک نامی مذہبی سیاسی جماعت کا قیام عمل میں آیا ہے تب سے ان واقعات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ پہلے دو تین سال بعد کوئی واقعہ ہوتا تھا مگر اب ہر چھ ماہ بعد واقعات ہو رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ تحریک لبیک کے ووٹ بینک میں ہر الیکشن کے بعد اضافہ ہو رہا ہے۔

جہاں ایک طرف پاکستان میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہے، وہاں مذہبی رواداری ناپید ہوتی جا رہی ہے جس کی ذمہ داری ہئیت مقتدرہ اور سیاسی مذہبی قیادت پر ہے۔ ایک طرف ہئیت مقتدرہ مسلسل تحریک لبیک جیسی انتہاپسندی کی سوچ والی جماعتوں کی سہولت کار بن چکی ہے، دوسری طرف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے سماج میں رواداری کے فروغ کے لئے کوئی بھی مثبت کام نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس وقتی سیاسی فائدہ کے لیے کالعدم شدت پسند تنظیموں سے سیاسی اتحاد بھی کیے جس کا سیاسی فائدہ تو ہوا مگر سماجی نقصان بہت زیادہ ہوا۔

ان پریشان کن حالات میں ریاست یا حکومت کو کس حکیم لقمان نے مشورہ دیا تھا کہ ایک متنازعہ کردار ڈاکٹر ذاکر نائیک کو مدعو کیا جائے اور اسے سرکاری مہمان کا درجہ دیا جائے؟ ذاکر نائیک ایک متنازعہ کردار ہے۔ وہ بھارت کا شہری تھا۔ ممبئی مہا راشٹر کا رہائشی ہے مگر اپنی تنظیم کے زیر اہتمام کرائے گئے مناظروں میں جب اس نے دوسرے مذاہب کی توہین شروع کی تو سرکاری طور پر اس کا نوٹس لیا گیا۔ پھر اس کے مالی معاملات بھی شفاف نہیں تھے۔ بے شمار بار اس پر ٹیکس چوری کے الزامات لگے۔ عدالتی طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر ذاکر نائیک کو اشتہاری قرار دیا گیا جس کے باعث وہ اپنے ملک بھارت نہیں جا سکتا۔ آج کل ملائشیا میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ہے۔

ذاکر نائیک نے اپنی شہرت کے عین مطابق پاکستان آ کر متنازعہ بیانات دینے شروع کر دیے۔ پاکستان سویٹ ہوم کی تقریب میں چھوٹی بچیوں کو انعامات نہ دینے کی بات ہو، پی آئی اے پر ضرورت سے زائد وزن کے ساتھ سفر یر جرمانے کی بات ہو، خواتین اینکر پرسنز کے خلاف بات ہو یا عورت کے حکمران بننے کی بات ہو؛ ہر جگہ ذاکر نائیک نے سستی اور سطحی بیان بازی کی اور ثابت کیا کہ وہ عالم دین نہیں بلکہ شہرت اور دولت کا بھوکا ایک گھمنڈی اور بدتمیزی برپا کرنے والا کردار ہے۔

گئے وقتوں کی بات ہے شریف خاندان نے بے نطیر بھٹو کے خلاف سرکاری ملاؤں کو لانچ کیا تھا کہ عورت کی حکمرانی کے خلاف فتویٰ جاری کریں لیکن آج ان کی بیٹی پنجاب کی فارم 47 کے مطابق وزیر اعلیٰ ہے۔ اس کے تایا کی حکومت نے ذاکر نائیک کو سرکاری مہمان کے طور پہ مدعو کیا، پورے پروٹوکول کے تحت ملاقاتیں کیں اور اب وہی ذاکر نائیک ان کی بھتیجی کے خلاف بیان بازی کر گیا ہے تو یہ ہے قانون فطرت جو اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات اس وقت خراب ہیں۔ چند ماہ بعد پاکستان کرکٹ کا بڑا مقابلہ چیمپیئنز ٹرافی ہونے والا ہے جس میں ہم بھارتی کرکٹ ٹیم کو ہر صورت پاکستان بلانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف بھارت کے عدالتی مفرور کو سرکاری مہمان بنا رہے ہیں۔ یہ ایک بہت احمقانہ فیصلہ ہے۔ جس کسی نے بھی ریاستی یا حکومتی سطح پر ذاکر نائیک کو پاکستان مدعو کیا ہے اس نے ملکی مفاد میں کوئی درست فیصلہ نہیں کیا۔

حرف آخر، پچھلے مضمون میں اداکار اور ڈائریکٹر عثمان پیرزادہ کے حوالے سے ایک بیان کی درستگی کرنا ہے کہ انہوں نے کہا تھا پوری دنیا میں تھیٹر 7 بجے شروع ہوتا ہے، 9 بجے تک ختم ہو جاتا ہے اور 10 بجے نائٹ کلب شروع ہوتا ہے جبکہ پاکستان تھیٹر 10 بجے شروع ہوتا ہے کیونکہ تھیٹر نائٹ کلب بن چکا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔