ہم جہاں آج رہ رہے ہیں یہ انسانیت کی تاریخ میں شاید سب سے زیادہ ترقی یافتہ دور ہو، ٹیکنالوجی نے اس قدر ترقی کی ہے کہ آج کچھ بھی ناممکن سا نہیں لگتا، کچھ بھی پہنچ سے دور نہیں اور ایک کلک پر مطلوبہ مواد آنکھوں کہ سامنے ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ طبقہ انتہائی خوش قسمت ہے جس کا کام جستجو، سوال، مکالمہ اور ریسرچ کرنا ہو۔
مگر انتہائی افسوس کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب اسی طبقے کی حالت زار (اور وہ بھی اکثریتی) اس سے محروم اور یکسر مختلف ہو، مثلا ٹیکنالوجی کی بات کی جائے اور تو سب سے عام موبائل فون اور سوشل میڈیا ہی کو دیکھ لیں۔ آج کا یہ طبقہ (طالب علم) اس کا استعمال تو بھرپور کرتا ہے مگر کیسے کرتا ہے؟ کچھ خبروں سے اندازہ لگائیں۔
بیٹے نے پب جی نہ کھیلنے دینے پر والد کا سر کاٹ دیا
دوستوں نے مل کر خفیہ ویڈیو بنا کر بلیک میل کیا
سوشل میڈیا پر فیک آئی ڈی سے گستاخانہ مواد پوسٹ کرنے پر نوجوان پر تشدد کر کے قتل کیا گیا
ان سب کے علاوہ اگر کچھ دیکھنے کو ملتا ہے جسے یہ طبقہ بڑے شوق کے ساتھ شیئر یا پوسٹ کرتا ہے تو کسی نامور اور نام نہاد کرپٹ شخصیت کی تعریف، زندہ باد و مردہ باد، غداری کی سرٹیفیکٹس کی تقسیم یا کوئی سیلفی یا ٹک ٹاک کا ہیرو، بلکہ میں اس ہیرو کی حوصلہ افزائی کروں گا۔ کم از کم خود کو وقت دے رہا ہے بجائے کسی اور کی خودساختہ نمائندگی کرنے کے۔
اب سوال یہ کہ ایسا ہونے سے روکا کیسے جائے؟ کیونکہ لمبی لمبی تقریریں تو کم از کم ہر محلے کی مسجد سے ہفتے میں ایک بار ضرور ہوتی ہیں۔ رش بھی ہوتا ہے اور امریکہ کے لیے بدعا بھی کی جاتی ہے مگر پھر بھی ہر دوسرے شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ امریکہ ضرور جائے اور لائف کو سیٹ کرے۔
طالب علم کی قربت تعلیمی اداروں سے ہے تو اداروں میں رہ کر ہی طلبہ کو بجائے مذہبی ٹھیکہ داری یا کسی جماعت کی جھنڈوں کی پہرہ داری پر لگانے کے، اُن کے لیے یہ ماحول پیدا کیا جائے جہاں وہ اپنی بات بول سکیں، سوال کر سکیں بلکہ سوال سوچھ سکیں۔ کیونکہ سیلفی زدہ معاشرے نے ہر شخص کو اس طرح ایڈیٹ کر کے نمائشی بنایا ہے جہاں کچھ نا جاننا، بالکل اسی طرح کا عیب سمجھا جاتا ہے جیسے اپنی پروفائل فوٹو کو بغیر ایڈیٹ کیے لگانا خود کو ناپسند ہو۔
خیر پچھلے دنوں ایک خوبصورت ویڈیو اسی طبقے کے چند نوجوانوں کی سوشل میڈیا پر وائرل دیکھی، جس میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے کچھ طالبعلم کامریڈ جالب کی ایک نظم دستور کو گنگنا رہے ہیں جو مزاحمت کی علامت ہے اور وقت کے ہر جابر حکمران کے خلاف ایک للکار ہے، جس میں شاعر استحصالی اور سوچھ پر قدغن لگانے والی حکمران اور نظام کو چیلنچ کر کے کہتا ہے۔
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
اب مشکل یہ ہے کہ میں اگر آج ایسا بولوں تو کس دستور کو نہیں مانتا؟ کون سی صبح ہے جو بے نور ہے؟ کیونکہ اگر میں نہیں جانتا تو ذکر کیسے کرتا؟ اور اگر جانتا ہوں تو مانتا کیوں نہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو غالباً آج فضول، بے کار اور وقت کو ضائع کر دینے والے سمجھے جاتے ہیں، بلکہ مجھے اتنا بھی شک ہے کہ ان کا سمجھنا بھی مشکل ہے۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ بات بھی یہی ہے کہ ایسا بھی بالکل نہیں ہے کہ طلبہ کے لیے ایسے پلیٹ فارم نہ ہوں، بلکہ طلبہ سیاست کی نام نہاد تنظیمیں بھی ہیں، ان کی سرکلز بھی ہوتے رہتے ہیں اور عہدے داریاں بھی ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ کرپشن کی میل میں گندے اور داغ دار سیاسی جماعتوں کے نوجوان ونگ جنہیں سیلفی، زندہ باد اور مردہ باد کے علاوہ یہ پتہ بھی نہیں کہ طلبہ یونین کیا ہوتی ہیں۔ وہ طلبہ سیاست کی ٹائٹل کو انجوائے کر رہے ہیں۔
جہاں عہدے اندر کی مشاورت سے کم باہر کی فون کال پر تقسیم ہوتے ہوں، جہاں ایک عام طالب علم کو چےگوویرا بننے کے وظیفے یاد کرائے جاتے ہوں اور چالاک لیڈر خود شوکت عزیز یا اپنے مستقبل کے لیے کوئی ٹکٹ، ٹھیکہ یا سرکاری عہدے کے خواہش مند ہو، وہاں دستور کو نا ماننے والے بہت کم، چند طالبعلم ضرور ہوں گے۔
مگر، باقی سارے سیلفی زدہ، پب جی ماسٹر، گالیوں والے کمنٹس کے ماہر اور یس سر، یس سر کہنے والے فرمانبردار۔۔۔