ایف آئی اے کیجانب سے اندراجِ مقدمہ پر شاہ زیب جیلانی کیا کہتے ہیں؟

ایف آئی اے کیجانب سے اندراجِ مقدمہ پر شاہ زیب جیلانی کیا کہتے ہیں؟

  • صحافی شاہ زیب جیلانی کی ایک لاکھ روپے کے ذاتی مچلکے کے عوض قبل از گرفتاری عبوری ضمانت منظور

  • شاہ زیب جیلانی کیخلاف پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف تبصرہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے

  • کراچی کی عدالت میں پیر کو اس مقدمے کی سماعت ہوگی

  • شاہ زیب جیلانی نے جبری گمشدگی پر ایک پروگرام کیا تھا

  • ’اگر ریاست کو کسی کے ساتھ شکایت ہے تو آپ قانون کے دائرے میں رہ کر ان کے خلاف کارروائی کریں‘ُ

  • ’ہم نے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ سوچ تو قائم رہی ہے، ہم نے اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔‘

  • ’اس بات کی خوش ہے کہ انھوں نے قانونی راستہ اختیار کیا تاہم اس میں ہراسمنٹ کا ایک پہلو شامل‘


اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمے پر برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے شاہ زیب جیلانی کا کہنا تھا کہ سنہ 2017 میں انھوں نے ’آج کامران خان کے ساتھ‘ شو میں جبری گمشدگی پر ایک پروگرام کیا تھا۔

انکا کہنا تھا کہ ویسے تو بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے ایک عرصے سے یہ گمشدگیاں ہو رہی ہیں لیکن اس کے بعد لاہور اور اسلام آباد سے بھی ہونے لگیں ہم نے کہا کہ یہ تو سارا معاملہ مین اسٹریم ہوگیا ہے۔ تو ہم نے اس کو صحافتی انداز میں کور کیا اور ہم نے کہا کہ اگر ریاست کو کسی کے ساتھ شکایت ہے تو آپ قانون کے دائرے میں رہ کر ان کے خلاف کارروائی کریں۔ انھیں یہ ناگوار گزرا کہ آپ نے اس ایشو پر ہی کیوں بات کی ہے۔‘

شاہ زیب جیلانی نے بتایا کہ انھوں نے سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو پر ایک ڈاکیومینٹری کی تھی کہ ان کا جو دور اور کنٹری بیوشن ہے ہم نے اس بھلا دیا۔ وہ جنرل ضیاالحق کے وقت کے کٹھ پتلی وزیر اعظم تھے لیکن اس کے باوجود بھی ملک کو جمہوری ڈگر پر لانے میں ان کا بڑا کردار ہے۔

’ڈاکیومینٹری کے آخر میں میزبان نے مجھ سے پوچھا کہ ہمارے لیے کیا سبق ہے میں نے کہا کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ سوچ تو قائم رہی ہے، ہم نے اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔‘

شاہ زیب جیلانی کے مطابق ’یہ اس قسم کا عام سا تبصرہ تھا جس سے پاکستان کی اکثریت اتفاق کرے گی اور اس میں کسی پر تہمت نہیں لگائی گئی اس میں ہم نے حقائق کو بیان کیا تو انھوں نے الزام لگایا کہ آپ نے اس میں اشارہ ہماری جانب کیا ہے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بدنام کیا ہے اور یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ملکی سیاست چلاتے ہیں۔‘

’میرا خیال ہے کہ اس گھٹن کے ماحول میں بھی ان معاملات پر تو بات ہوتی ہے ہمارے سیاست دان کرتے ہیں اور ہمارے تجزیہ نگار کرتے ہیں۔ ہم تو سیاسی حکومت پر بھی تنقید کرتے ہیں ان کی کرپشن پر بھی ہم بات کر رہے ہوتے ہیں اس لیے ہماری کس ادارے یا کسی جماعت سے نہ کوئی لگاؤ ہے نہ کوئی بغض ہے۔‘

کراچی کی عدالت میں پیر کو اس مقدمے کی سماعت ہوگی، شاہ زیب جیلانی کا کہنا ہے کہ اس بات کی خوش ہے کہ انھوں نے قانونی راستہ اختیار کیا تاہم اس میں ہراسمنٹ کا ایک پہلو شامل۔ ماضی میں ہمارے صحافیوں نے تشدد برداشت کیا ہے جانیں گنوائی ہیں جس سے ریاست کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے کہ اس کو اب دوسرے انداز سے نمٹا جائے۔

’میرا خیال ہے کہ جس وقت یہ سائبر قانون بن رہے تھے اس وقت ہمارا ملک انتخابی عمل اور سیاسی دھما چوکڑی میں مصروف تھا اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی اب نظر یہ آرہا ہے کہ اس میں کچھ شقیں ایسی ڈالی گئی ہیں جس کو استعمال کرتے ہوئے یہ کسی بھی ورکنگ جرنلسٹ کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں اس کی زبان بندی کرسکتے۔‘

یاد رہے کہ کراچی کی عدالت نے سنیئر صحافی شاہ زیب جیلانی کی ایک لاکھ روپے کے ذاتی مچلکے کے عوض قبل از گرفتاری عبوری ضمانت منظور کرلی ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس میں ان پر پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف تبصرہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔