میری ایک بیٹی نرس ہے ۔ ہسپتال میں کام کرتی ہے۔ میرے بڑھاپے میں ایک سہارا ہے۔ ان کے باپ کے گزر جانے کے بعد کتنی مشکل سے ان کو پڑھایا، بچے اتنے آسانی سے تو کسی مقام پر نہیں پہنچتے ۔والدین کی ہزاروں بےچین دن رات انکے پیچھے ہوتے ہیں ۔ جب سے کرونا وائرس کی وبا آئی ہے میں اس کے لیے بہت پریشان رہتی ہوں ۔
میں اس کو کہتی تھی کہ اپنے لئے حفاظتی انتظامات کرو،وہ سامان لو تو وہ کہتی کہ امی تنخواہ کے لیے انتظار کر رہی ہوں ۔ تنخواہ مل جائے تو سب کچھ لوں گی ۔ میں سوچتی تھی کہ حکومت کے پاس پیسے نہیں تو خیر ہے اگر میری بیٹی اپنی تنخواہ سے وہ حفاظتی سامان کی خریداری کرلے ۔ کل سے بیٹی کی طبیعت خراب تھی تو سوچا ناظم صاحب سے کچھ پیسے ادھار لوں ۔
ناظم صاحب کے گھر گئی تو دیکھا کہ وہ ڈاکٹروں اور نرسوں کی کرونا کے لیے ہسپتال میں استعمال ہونے والی حفاظتی وردی میں ان کے بچے کرکٹ کھیل رہے تھے اور ان کا باورچی کھانے پکانے کے لئے استعمال کر رہا تھا ۔ ناظم صاحب نے سب رشتہ داروں کو تحفے تحائف میں دینا شروع کیا ہے۔
یہ شاید سرکاری مال نہ ہو ، کیا پتہ امیر لوگ ہیں اپنے پیسوں سے خریدا ہوگا لیکن اس کی ضرورت تو ڈاکٹروں اور نرسوں کو تھی اس طرح ضائع کرنے کے لیے نہیں ۔ میں اپنے ڈاکٹر، نرس بیٹے بیٹیوں سے افسوس اور ہمدردی ہی کر سکتی ہوں اور ان کے لیے دعا گو ہوں اللہ سب کی حفاظت فرمائے۔
مصنف آزاد جموں و کشمیر میڈیکل کالج مظفرآباد سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں