اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال نے کہا ہے کہ شہباز گل نے جو کہا وہ اُن کا یا پارٹی کا موقف ہو گا اس کا اے آر وائی سے کوئی تعلق نہیں، ہمیں اگلے دن پتہ چلا کہ شہباز گل ہمارے ٹی وی پر اتنی بڑی بات کر چکے ہیں۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے کے مالک سلمان اقبال نے اپنی ممکنہ گرفتاری کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کے اُن کے چینل پر دیے گئے متنازع بیان سے نہ صرف مکمل طور پر لاعلم تھے بلکہ انھیں اس بیان کی بابت ایک روز بعد پتا چلا کہ ایسی کوئی بات ہوئی ہے۔
شہباز گل کی فوج کے حوالے سے اے آر وائے پر متنازع گفتگو کے بعد انھیں مبینہ بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ اے آر وائے کے مالک سلمان اقبال، اینکر پرسن ارشد شریف اور خاور گھمن کراچی میں درج ہونے والی اسی نوعیت کی ایک اور ایف آئی آر کے بعد سے مفرور ہیں۔ گزشتہ چند دن قبل ارشد شریف کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ملک سے فرار ہو کر دبئی روانہ ہو چکے ہیں جبکہ سلمان اقبال پہلے سے بیرون ملک ہیں۔
شہباز گل کی متنازع گفتگو آن ایئر ہونے کے بعد اے آر وائے کی نشریات معطل کر دی گئی تھی تاہم سندھ ہائی کورٹ نے بدھ کی شب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے حکمنامے کو معطل کرتے ہوئے ملک بھر میں اے آر وائے کی نشریات بحال کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
بی بی سی سے نامعلوم مقام پر واٹس ایپ پر بات کرتے ہوئے سلمان اقبال کا کہنا تھا کہ درحقیت وہ پروگرام اے آر وائے کے بیورو چیف خاور گھمن کی بریک کردہ اس سٹوری پر ہو رہا تھا کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ مبینہ طور پر وزیراعظم ہاؤس کے اندر ایک میڈیا سیل چل رہا ہے جو ایک مخالف سیاسی جماعت (تحریک انصاف) کے نام پر آرمی مخالف موقف پھیلا رہا ہے۔
سلمان اقبال نے کہا کہ ہم نے ساری جماعتوں کو بلایا تھا، جن میں شہباز گل بھی تھے۔ چونکہ مسلم لیگ ن نے ہمارے چینل کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے اس لیے وہ نہیں آئے۔ پروگرام میں شہباز گل پارٹی کا مؤقف دے رہے تھے، ہمیں تو اگلے دن یہ پتہ چلا کہ ہمارے ٹی وی پر وہ اتنی بڑی بات کر چکے ہیں۔ اس میں ہمارا کیا قصور ہے، وہ آئے انھوں نے پارٹی کا موقف دیا اور چلے گئے مگر پھر حکومت نے پیمرا کے ذریعے ایک خط لکھ کر بھیج دیا کہ ہم غدار ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں سلمان اقبال کا کہنا تھا کہ شہباز گل کا جو موقف ہے وہ اُن کا اپنا موقف ہو گا یا پھر پارٹی کا موقف ہو گا اس کا اے آر وائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سلمان اقبال سے ابتدائی انٹرویو کے بعد بی بی سی نے انھیں یہ سوال بھیجا کہ کیا پیمرا قانون کے مطابق آپ شہباز گل کے بیان سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں کیونکہ جب آن ایئر ایک بات ہوئی تو ڈیلے (پروگرام ریکارڈ اور اس کے لائیو جانے کے درمیان کا مختصر وقفہ) کے دوران اس کو روکا کیوں نہیں گیا اور اس سلسلے میں کسی پروڈیوسر یا ڈائریکٹر نے کوئی کردار ادا کیوں نہیں کیا؟ تاہم کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود سلمان اقبال کی جانب سے ان سوالات کے کوئی جواب موصول نہیں ہوئے ہیں۔
انھیں یہ سوال بھی بھیجا گیا کہ کیا آپ ادارتی سطح پر اس معاملے پر تحقیقات کر رہے ہیں اور اگر کر رہے ہیں تو کیا اس کے نتائج کو پبلک کیا جائے گا؟ تاہم اس سوال کا بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
سلمان اقبال نے کہا کہ ’اس میں میری ذمہ داری نہیں آتی کہ کون سی جماعت کیا بات کرتی ہے، کسی جماعت کا کیا ایجنڈا ہے وہ ایجنڈا ہم سیٹ نہیں کرتے، یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے۔ اے آر وائے ایک سیاسی ادارہ نہیں بلکہ معلومات فراہم کرنے والا ادارا ہے، ہمارا کام ہے درست معلومات کی فراہمی۔ اگر شہباز گل کا موقف ہے تو یہ ان کا ذاتی موقف ہے یا ان کی جماعت کا موقف ہے اس سے اے آر وائی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
سلمان اقبال نے مزید کہا کہ اُن کا کام پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے، یہ اُن کا کام نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بتائیں کہ انھیں کیا بولنا ہے، کیا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا خود کا ایک موقف ہوتا ہے، اس سے قبل بہت ساری سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ ن آرمی کے خلاف دس مرتبہ ٹی وی پر بات کر چکی ہیں، پارلیمینٹ کے اندر کر چکے ہیں، انھیں تو کسی نے نہیں کہا کہ یہ ملک غدار ہیں، کبھی وہ سیکشن نہیں لگا جو ہم پر لگا ہے، انھیں تو کبھی گرفتار نہیں کیا گیا، ہمارے بندے کو اٹھا کر لے گئے، میرے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی، ہم نے تو کچھ بھی نہیں کہا ، صرف پلیٹ فارم فراہم کیا تھا جس میں شہباز گل نے آ کر بات کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی اور مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اے آر وائے کے ہیڈ آف نیوز حماد یوسف کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا ہے، باقی ایف آئی آر میں ہم تین لوگ ہیں۔ میں، خاور گھمن اور ارشد شریف۔ تینوں نامعلوم جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال نے دعویٰ کیا کہ حکومت اور اُن کے درمیان کوئی بھی ثالثی کا کردار ادا نہیں کر رہا اور نہ ہی حکومت نے رابطہ کیا ہے تاہم مریم اورنگزیب نے ٹوئیٹ کیا ہے کہ اے آر وائی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ ’اچھا‘ ہوا۔
سلمان اقبال نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں یہ ہمارے ساتھ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی ہمارے ساتھے ایسا ہو چکا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ ہمیں ٹارگٹ کیا ہے۔اس سے پہلے والی حکومت میں جب میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے تو انھوں نے میرے خلاف اور اس وقت کے نیوز ڈائریکٹر اویس توحید اور صابر شاکر کے خلاف انسداد دہشت گردی کا مقدمہ درج کروایا تھا، وہ بھی اسی طرح کا کوئی فالتو کیس تھا۔
سلمان اقبال کے مطابق مسلم لیگ ن کے بائیکاٹ کے باوجود وہ تو آج بھی وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز یا جو بھی مسلم لیگ ن کا وزیر ہے یا رہنما ہے اُن سب کی پریس کانفرسنز اور تقاریر دکھاتے ہیں۔ پیمرا میں ایک اصول ہے کہ آپ کو ہر جماعت اور ہر ادارے کو برابر کا وقت دینا ہے جو کہ ہم دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے اے آر وائے پر پروگرام اور شہباز گل کی بات کو ایک ’طے شدہ منصوبہ‘ قرار دیا تاہم سلمان اقبال اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ بندی ہوتی تو انہیں پتہ ہوتا، ادارے کو پتہ ہوتا، کسی کو تو پتہ ہوتا، کسی کو بتائے بغیر یہ کیسے پلاننگ ہو سکتی ہے؟
سلمان اقبال نے مزید کہا کہ میرا کال لاگ چیک کر لیا جائے کہ میری شہباز گل کے ساتھ آخری مرتبہ بات کب ہوئی ہے، اس کو چھوڑیں یہ چیک کر لیں کہ میری حماد یوسف کے ساتھ آخری بات کب ہوئی ہے۔ میں اپنا فون دے دیتا ہوں نکال لیں، چیک کریں، اگر ہم نے منصوبہ بندی کی تھی تو اس میں دو تین دن تو لگے ہوں گے۔ کالز کا تبادلہ ہوا ہو گا وہ دکھا دیں۔‘
تاہم سلمان اقبال کہتے ہیں کہ جب حامد میر پر حملہ ہوا اس وقت جیو آرمی کے خلاف اور بلخصوص ایک دفاعی ادارے کے خلاف کھڑا تھا، اس وقت صحافتی اصول یہ کہتا تھا کہ ہم پاکستان کو بچائیں، اپنے اداروں کو بچائیں، ہماری آرمی ایک بہت بڑا ادارہ ہے۔ ہم نے اس وقت صحافتی فیصلہ لیا کہ نہیں یہ جو کہہ رہے ہیں غلط کہہ رہے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب میر شکیل گرفتار ہوئے تھے تو میں ذاتی طور پر اس میں شامل ہوا تھا۔ میں نے درخواست کی تھی کہ انھیں جانے دیں ایسی بات نہیں ہماری ادارے نے بہت بار دیگر اداروں کی حمایت کی ہے ہاں جہاں ملک کے دفاع کی بات آتی ہے وہاں ہم اس کو سپورٹ کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ شہباز گل اور حامد میر کے واقعے میں فرق ہے، اس واقعے میں کسی اور پارٹی نے یہ بات بولی ہے، پچھلے واقعہ میں یہ ہوا تھا کہ صحافیوں نے یہ الزاام عائد کیا تھا اور باقاعدہ پانچ پانچ دن چھ چھ دن یہ ٹرانسمیشن چلی تھی ایک ہی موقف پر، یہاں تو یہ بات نہیں ہوئی۔
سلمان اقبال سے یہ سوال کیا گیا کہ یہ تاثر عام ہے کہ جب ایک پارٹی برسر اقتدار آتی ہے تو ساتھ میں ایک نیوز چینلز بھی اقتدار میں آتا ہے جب ایک پارٹی اپوزیشن میں جاتی ہے تو ساتھ میں چینل بھی اپوزیشن میں جاتا ہے، اس پر اُن کا جواب تھا کہ سیاسی جماعتوں کا ایک کھیل ہے، انھوں نے سمجھ لیا ہے کہ میڈیا کو تقسیم کرکے حکمرانی کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں پاکستان براڈ کاسٹر ایسو سی ایشن کے پلیٹ فارم سے ہمیشہ کہتا رہا ہوں کے میڈیا مالکان کو اپنا ذاتی ایجنڈہ سائیڈ پر رکھ کر صحافتی اصولوں کو سامنے رکھ کر ایک ہونا پڑے گا کیونکہ یہ بہت ضروری ہے۔ آج ہمارے ساتھ ہوا ہے اس سے پہلے جیو کے ساتھ ہوا ہے اس سے قبل مشرف کے زمانے میں ہم سب چینلز کے ساتھ ہو چکا ہے اس کے باوجود ہم اس چیز سے نہیں سیکھ سکے، بطور میڈیا مالکان ہمیں ایک ہونا پڑے گا اور جب کسی ایک کے ساتھ مسئلہ ہو تو دوسرے کو کھڑا ہونا پڑے گا۔
سلمان اقبال کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان ہوں، آصف زرداری یا شہباز شریف ہوں سب کے لیے ایک ہی بات ہے کہ سیاسی انتقامی کارروائی کا سلسلہ بند کرنا پڑے گا ورنہ یہ کہانی ختم نہیں ہو گی، اگلی جو حکومت آئے گی وہ دوسرے کسی میڈیا ہاؤس کو بند کرے گی۔
سلمان اقبال کہتے ہیں کہ وہ کبھی بھی خود کو کمزور محسوس نہیں کرتے کیونکہ پاکستان اور یہاں کے لوگ ان کے ساتھ ہیں البتہ موجودہ صورتحال میں اکیلا اور تنہا بلکل محسوس کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ کوئی فلاحی ادارہ تو نہیں ہے، مشرف کے زمانے میں جب دو مہینے کے لیے چینل بند کیا گیا تھا تو ان دو مہینے سے ہم دو سال پیچھے چلے گئے تھے، ہم نے سب لوگوں کو تنخواہیں تو دی تھیں لیکن کبھی دو مہینے تاخیر سے، کبھی چار مہینے تاخیر سے۔
اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال نے کہا کہ گذشتہ چھ سات برسوں میں ہم اس کو ریگیولر لے کر آئے۔ آج پانچ ہزار لوگ کام کرتے ہیں، ان کے خاندان ہیں اس طرح بیس پچیس ہزار لوگوں کا ذریعہ معاش جڑا ہے وہ سب پاکستانی ہیں ان میں سے بہت سارے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے بھی سپورٹر ہوں گے، ان کا حق کوئی کیسے چھین سکتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اے آر وائے بندش کی مذمت کی تاہم سڑکوں پر نکل کر احتجاج نہیں کیا گیا جو اس سے قبل ماضی میں نظر آتا ہے۔ بعض صحافیوں کا ماننا ہے کہ ماضی میں جب دیگر اداروں اور صحافیوں کے خلاف ریاستی کارروائیاں ہوئیں تو اے آر وائے کے بعض صحافیوں نے اس کی حمایت اور دفاع کیا۔