معافیاں، تلافیاں، مقدمے، کمیٹیاں: چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن واپس کون لائے گا؟

آپ وکیل ہیں، کیا آپ کو قانون پر یقین نہیں تھا جو آپ بھی توڑ پھوڑ کرنے ہسپتال پہنچ گئے؟ جس کے آپ نے شیشے توڑے ہیں وہ دل کا اسپتال ہے، مریض زیر علاج ہیں۔ زندگی اور موت کے بیچ میں جھول رہے ہیں۔ اس کا حساب کون دے گا؟ جن مریضوں کے آپریشن رک گئے، ان کا کیا؟ آپ کی انا کی لڑائی میں کئی بے قصوروں نے جان دے دی ہے۔ یہ جانیں آپ کے کھاتے کیوں نہ ڈالی جائیں؟ کیا آپ کا بھی پاکستان کے قانون سے یقین اٹھ گیا ہے۔

جب آپ وکلا کا وہ ’سمندر‘ لے کر جا رہے تھے اور آپ کے ہاتھوں میں وہ بڑے بڑے ڈنڈے تھے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ انسانیت گھر چھوڑ کر آ رہے ہیں۔ آپ تو قانون کے محافظ تھے، محض ایک لڑائی نے آپ کو اسی قانون کا قاتل بنا دیا؟ ایک لڑائی نے آپ کی ساری وکالت نکال دی؟

اب بات کرلیتے ہیں کہ یہ شروع کیسے ہوا؟

چند روز پہلے کچھ وکلا نے پی آئی سی میں علاج کے بعد ملنے والی مفت ادویات کی قطار کا لحاظ نہ کرتے ہوئے پہلے فراہمی کا مطالبہ کیا تھا، جو پورا نہ ہونے کی وجہ سے وکلا اور انتظامیہ میں لڑائی ہو گئی۔ جس پر پی آئی سی انطامیہ نے ایف آئی آر درج کروا دی۔ جب اس لڑائی اور وکلا کے ہاتھ میں پستول اور ڈنڈے دیکھ کر میں نے اپنے ذرائع سے پوچھا تو پتہ چلا کہ آج یعنی بدھ کو انتظامیہ اور وکلا کے درمیان مذاکرات ہونے تھے مگر وکلا ایک ہجوم کی صورت میں آئے اور حملہ کر دیا۔ وکلا مختلف جگہوں سے داخل ہوئے اور پہلے مرحلے میں ایمرجنسی، آئی سی یو اور سی سی یو سمیت مختلف جگہوں پر توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ ان کے ٖغیر انسانی رویہ کا شکار صرف ڈاکٹر ہی نہیں، بلکہ کئی زندگی اور موت کے درمیان کشمکش کا شکار مریض بھی ہوئے۔

https://www.youtube.com/watch?v=VCmmUK7-788

انصاف کی ایک تحریک چلی۔ افتخار چودھری صاحب نے چلائی۔ جس میں ایک نعرہ لگا کہ ریاست ہوگی ماں کے جیسی، جس میں پورے معاشرے نے وکلا طبقے جس کی پاکستان میں بہت عزت تھی کا بھرپور ساتھ دیا۔ لیکن آج کے مناظر انتہائی شرمناک تھے۔ جنگ کی حالت میں بھی ہسپتالوں پر حملہ نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک جنگی جرم ہے۔ یہ نوجوان وکلا جو آج کالا کوٹ پہن کر دل کے ہسپتال کو جنگ کا میدان بنا رہے ہیں، یہی تو ہمارا مستقبل ہیں۔ ان کو دیکھ لیں، آپ کو سمجھ آ جائے گی معاشرہ جا کہاں رہا ہے۔

صرف ڈاکٹر کو ہی نہیں بلکہ جو مریض اپنی جان بچانے آئے تھے، ان کو اپنے ہاتھوں میں لگی ڈرپس کے ساتھ اپنی جان کے لئے بھاگنا پڑا۔

یہ جنگ 23 نومبر کو ہوئے واقعے کی اگلی کڑی ہے۔ اس روز کی ڈاکٹروں اور وکیلوں کی تکرار نے بھی کچھ ہی لمحات میں ایک جنگ کا روپ لے لیا تھا۔ کافی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ کاش کہ پولیس نے تبھی کوئی ایکشن لیا ہوتا۔ آئی جی اور ڈی آئی جی پنجاب نے دونوں پارٹیوں میں صلح کرانے کی بھی بہت کوشش کی۔ مگر شاید ان وکلا کو سیاسی مفادات انسانی جانوں سے زیادہ عزیز تھے۔

https://www.youtube.com/watch?v=lVsFleYjKkc

شاید یہ تنازع ڈاکڑوں کے معافی مانگنے پر ختم ہو جاتا، اگر ینگ ڈاکٹرز اسوسی ایشن کی ایک ویڈیو منظر عام پر نہ آتی جس میں ایک ڈاکٹر پی آئی سی میں خطاب کرتے ہوئے وکلا کا مذاق اڑا رہا تھا۔

اس ویڈیو نے وکلا کو سیخ پا کر دیا۔ ایمرجینسی وارڈ پر حملہ ہوا تو گھر والوں نے اپنے پیاروں کی زندگیاں بچانے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی، جس میں کچھ معصوم لوگ اپنے پیاروں سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے۔ وزیر اعظم نے اس حادثے کا نوٹس لے لیا ہے، کئی وکلا بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔

یہ سب تو ہو گیا۔ وزیراعظم نے نوٹس بھی لے لیا۔ ایک کمیٹی بنانے کا حکم بھی جاری کر دیا۔۔ استعفوں کے مطالبات بھی ہو گئے۔ مگر گلشن بی بی اور محمد انور کے قاتل کون؟ کون ذمہ دار ہے؟ قانون کے محافظ نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں اور انہیں کوئی ضمیر کی چبھن ہوئی نہ ملامت؟ اب یہی وکلا انہی ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لئے جائیں گے اور یہی وکیل مقدمہ لڑنے انہی وکلا کی مدد لیں گے۔ کہاں پہنچ گئے ہیں ہم؟ ہمارے حکمرانوں نے ایک دوسرے سے انا کی جنگ میں قوم کو تباہ کر دیا ہے۔