انتخابات؛ پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی تینوں کا انتظام ہو گیا؟

نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس سارے عمل سے پاک صاف ہو کے نکل گئے ہیں۔ اگرچہ آزاد امیدواروں کی برتری اسٹیبلشمنٹ کے لیے حیران کن ہو سکتی ہے لیکن وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے آئندہ اتحاد کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔

انتخابات؛ پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی تینوں کا انتظام ہو گیا؟

اور آخر کار الیکشن ہو گئے۔ مسلسل شکوک و شبہات کے باوجود 8 فروری کو یہ معمہ تمام ہو گیا۔ تاہم اس کے بعد ملک بحران کے ایک اور بھنور میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ بے جماعت آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی میں برتری حاصل کر لی ہے اور مسلم لیگ ن ان سے پیچھے ہے۔ اس کے باوجود مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے 9 فروری کو اپنے کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کے دوران فتح کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد بنانے کا عندیہ بھی دیا۔ یہ اعلان کچھ حد تک عجیب تھا کیونکہ نواز شریف کی تقریر سے پہلے مسلم لیگ ن کے عطا تارڑ نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کیا۔ وہی تارڑ جن کی بلاول کے خلاف جیت کو 10 فروری کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور اب ان کی پارٹی کے رہنما بلاول کی پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت سازی کی تگ و دو کر رہے ہیں۔

بعد ازاں پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ نے نواز شریف کی جانب سے بطور وزیر اعظم قبل از وقت اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد کے لیے مذاکرات سے قبل کسی کو خود کو وزیر اعظم ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔

تاہم لفظوں کے اس تناؤ کے باوجود یہ اتحاد ناگزیر نظر آتا ہے، جیسا کہ فرائیڈے ٹائمز کے بانی ایڈیٹر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے یوٹیوب پر اپنے وائر پروگرام میں کہا۔ نجم سیٹھی نے واضح کیا کہ مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی اور ممکنہ طور پر ایم کیو ایم پاکستان کے مطالبات تسلیم کرنے ہوں گے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم کی عدم موجودگی میں اقتدار تک رسائی کا ایک قابل عمل راستہ تلاش کر رہے ہیں۔

9 فروری کی صبح جو کچھ بھی ہوا، وہ ایک اور کہانی ہے۔ یہ داستان آنے والی حکومت، خاص طور پر نواز شریف کو یقینی طور پر پریشان کیے رکھے گی، جن کی لاہور کے حلقے سے انتخابی کامیابی کو پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔ اگر وہ الیکشن ٹربیونل کے ذریعے قومی اسمبلی میں اپنی نشست برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بھی اس کی سیاسی حیثیت ہمیشہ شکوک و شبہات میں رہے گی۔ دوسری طرف نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس سارے عمل سے پاک صاف ہو کے نکل گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کی اکثریت نگرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ کہنے کا موقع دیتی ہے کہ انہوں نے انتخابی نتائج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ مزید براں انتخابات کے دن تشدد کے کسی بھی بڑے واقعات کے بغیر پرامن ووٹنگ کا عمل پہلے ہی ایک قابل ستائش کامیابی ہے اور یہ صحیح بھی ہے۔ اگرچہ آزاد امیدواروں کی برتری اسٹیبلشمنٹ کے لیے حیران کن ہو سکتی ہے لیکن وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے آئندہ اتحاد کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہم آہنگ تعلقات کے امکانات کے بارے میں نجم سیٹھی نے کہا کہ دونوں جماعتیں اقتدار میں واپس آنے کے لیے ان (اسٹیبلشمنٹ) کی قدرے زیادہ مقروض ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پی ٹی آئی کو ان کے انتخابی نشان سے محروم کرنے اور عمران خان کو انتخابات سے الگ کرنے دیا، ن لیگ کو مزید کتنی آزادی دے دی جاتی؟ ن لیگ کی کارکردگی دیکھ کر شاید اسٹیبلشمنٹ اپنے انتخاب سے کسی حد تک مایوس ہو رہی ہو کہ یہ وہ نتیجہ ہے جو سب کچھ کرنے کے باوجود آپ نے پیش کیا ہے؟ لہٰذا اب سنیں، اب جو آپ سے کہیں ویسا کریں ورنہ ہم ان 100 آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی میں واپس بھیج دیں گے اور اس کے بعد پھر آپ جانیں اور وہ۔ لہٰذا حکم کی تعمیل کرنے اور اس پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ لیکن کب تک؟

آنے والے منظرنامے میں ہمیں دو نکات پر غور کرنا ہو گا؛ ایک پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی تاریخ اور میاں نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ذاتی تاریخ۔

اسٹیبلشمنٹ نے 16 ماہ کی پی ڈی ایم حکومت کی ناقص معاشی کارکردگی کو بظاہر ان وجوہات کی بنا پر برداشت کیا؛ وزیر اعظم ہاؤس میں شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو کوئی اہم چیلنج نہیں دیا اور بلاول بھٹو بطور وزیر خارجہ غیر ملکی دوروں میں مصروف رہے، یعنی منظرنامے سے تقریباً غائب۔ ان کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم کی کارکردگی سے مایوس تھی، لیکن انہوں نے ان کی مدت ختم ہونے کا انتظار کیا۔ اس کے بعد دو سال کی مدت کی افواہوں کے ساتھ نگران آئے۔ ان میں محسن نقوی نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب قابل ستائش کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ انوار الحق کاکڑ وزیر اعظم کی حیثیت سے متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے کوسوں دور تھے۔ ان کی نام نہاد ٹیکنوکریٹس کی کابینہ کو بی کلاس بھی کہا گیا۔ اس دور میں معاشی محاذ پر عملی طور پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ نگران حکومت کی واحد معاشی کامیابی جمود کی پالیسی تھی، جس کا مطلب تھا نہ ہونے کے برابر ترقی اور اس طرح ڈالر کی شرح میں بظاہر استحکام۔

اب چلیے میاں نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی طرف، تو تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ دور میں ان کے آرمی چیف کے ساتھ تعلقات سے جڑے شکوک و شبہات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں کوئی یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کر سکتا ہے کہ شاید وہ اس طرح کے رجحانات سے آگے نکل گئے ہیں۔ تاہم ان کی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان بازی، 'ووٹ کو عزت دو' اور ان کا نعرہ 'مجھے کیوں نکالا؟' بہت پرانی یادیں نہیں ہیں۔ مزید براں، وہ اس مؤقف میں اکیلے نہیں ہیں۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز، جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ مؤقف کا اظہار کرتی رہی ہیں، اگلی حکومت میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ازراہ مزاح کسی نے میاں صاحب کے بارے میں کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم کے کردار سے بہت جلد بور ہو جاتے ہیں اور پھر وہ اپنی بوریت دور کرنے کے لئے آرمی چیف کے ساتھ تصادم شروع کر دیتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اس دفعہ انہیں موقع ملتا بھی ہے یا نہیں!

ان انتخابات کا ایک اور اہم نتیجہ ووٹرز کی جانب سے مذہبی جماعتوں کو مسترد کرنا بھی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی ف قومی اسمبلی میں صرف 4 نشستیں حاصل کر سکی۔ ملکی سطح پہ یہ شاید نوجوان رائے دہندگان کی ایک قابل ذکر تعداد کے جذبات کی عکاسی ہے جو مذہبی سیاست کی طرف مائل نہیں ہیں۔ ایک اور ممکنہ عنصر خواتین رائے دہندگان کی انتخابات میں خاطر خواہ شرکت بھی ہو سکتی ہے، جو خود کو زیادہ لبرل سیاست کے ساتھ جوڑنے کا رجحان رکھتی ہیں، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس سے انہیں زیادہ سماجی اور معاشی آزادی ملے گی۔ اس رحجان کو یورپی یونین اور غیر ملکی میڈیا مبصرین نے سراہا ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نتائج کے اعلان میں تاخیر، ٹیلی وژن پر نشر کیے جانے والے نتائج اور الیکشن کمیشن کی جانب سے فراہم کردہ نتائج میں تضادات کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا انتخابات کی ساکھ پر شدید تنقید کر رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی کے طور پہ اپوزیشن میں بیٹھ جاتی ہے، یا طاقتوروں کی خواہش کے برعکس حکومت سازی کی کوشش کرتی ہے تو کیا ہو گا؟ کیا ایسی صورت حال پیدا ہونے جا رہی ہے جو 2013 کے انتخابات کے بعد کے واقعات کی یاد دلائے گی، یعنی دھرنے کی سیاست یا سیاسی بحران کسی اور شکل میں ظاہر ہو گا؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کو درپیش بڑے معاشی چیلنجوں کا کیا ہو گا؟ جلد ہی قوم اور آنے والی حکومت دونوں ان سوالات کی حدت کو محسوس کرنا شروع کر دیں گے۔