پاکستان جیسی پارلیمانی جمہوریت پر بلوچ کیسے اعتماد کرے؟

برسوں سے ہمارے پارلیمانی امیدوار یہی بیانیے لیے پھرتے ہیں کہ پارلیمان بلوچ کا فورم ہے۔ جب نتائج برخلاف توقع آ جائیں یا تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تو احتجاج کی کال دیتے ہیں۔ پھر سرگوشی کرتے ہوئے دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔ آپ جب خود ہی کنفیوژڈ ہیں تو ہماری روٹین میں کیوں خلل ڈالنے آ جاتے ہیں؟

پاکستان جیسی پارلیمانی جمہوریت پر بلوچ کیسے اعتماد کرے؟

خدا جانے یہ کب سے ہے مگر جب بھی الیکشن بعد از سلیکشن اور دھاندلی سے رونے کی چیخ مجھ تک پہنچتی ہے تو ایک ہی پل میں پاکستانی الیکشن کا پاکستانی وائن سٹور سے موازنہ کرنے لگ جاتا ہوں۔ میری رائے ہے کہ پاکستانی الیکشن، پاکستانی وائن سٹور جیسے ہیں، جس کا لائسنس کسی اور کے نام پہ ہے اور چلا کوئی اور رہا ہے۔

وائن سٹور کے رواں دواں ماحول میں ایک چیز مجھے مہذب لگتی ہے کہ کوئی بھی بیچ میں آ کر رونا شروع نہیں کر دیتا، قیمت و معیار میں سمجھوتے کا الزام نہیں لگاتا۔ شاید اس کی وجہ آجو باجو میں ذہنی خوف بنے لفظ 'ممنوعہ' اور وائن سٹور سے بھتہ لینے والی پولیس کا ڈر ہو۔ صاحب جی کی طبیعت ہے کہ کبھی بھتہ کم ملے تو غصہ گاہک پر نکال دیتے ہیں۔ بقول ان کے 'مارکیٹ جام' کر دیتے ہیں۔

تاہم قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہونے کے خوف سے دھاندلی کی فریاد کرنے والا بھتے کی بولی اور اس کے معیار کا کبھی بھی الزام نہیں لگاتا۔ خدا جانے یہ ان کا قومی سلامتی سے لگاؤ ہے یا آئندہ الیکشن میں پھر لائسنس نہ ملنے کا خوف۔

شراب تیار کرنے والی کمپنی 'مری بروری' کا، میری معلومات کے مطابق، مرکز پنڈی ہے، لائسنس کا مالک غیر مسلم اور گاہک چھپے رستم۔ اس بیچ نہ ہندو کافر کا ہنگامہ، نہ مری بروری کے خلاف مہم اور نہ ہی استعمال کنندہ پر الزام۔ سب چل رہا ہے، ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے اور اگر یہ جملہ کسی پردیسی سے سننا پڑے تو بلا جھجک فرماتا ہے 'ویری سمودلی'۔

لیکن الیکشن کا یہ نتیجہ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اس میں سبھی ہمیشہ ایک ہی پیج پہ آ جاتے ہیں۔ دیسی تو اسے دھاندلی کہے گا ہی، بدیسی بھی رپورٹنگ کرتے وقت سلو موشن رزلٹ کا الزام داغ ہی دے گا۔ اب بتائیں اس افراتفری میں قومی سلامتی کی بچی کھچی ساکھ کیا خاک خطرے سے خالی ہو گی؟

لیکن اس سب کے بیچ بلوچستان کے امیدواروں کی انگڑائی میری سمجھ سے باہر ہے۔ اگر الیکشن نتائج میں تاخیر کا سامنا پنجاب کو بھی ہے تو آپ کو بلوچستان کے 50 پولنگ سٹیشنز کی ٹانگ بیچ میں گھسانے کی کیا جلدی؟

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

درود پڑھ کر اگر یہ خبر ہم لکھ لیں تو پھر بھی قومی سلامتی کے خطرے کا ڈر رہتا ہی ہے۔ مثلاً الیکشن کے دن یہ خبر آئی کہ مکُران ڈویژن میں کئی پولنگ سٹیشنز کا مواد جنتا نے جلا دیا، کئی سٹیشن انتہائی حساس ہونے کے بعد کھلے ہی نہیں، کئی سٹیشنز کے باہر عوام نے احتجاجاً دھرنا دیا۔ لیکن پھر بھی امیدواران کو انہی سٹیشنز سے دھاندلی کا خدشہ ہے اور کئی امیدوار یہاں سے ہزاروں ووٹوں سے کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ہم کہیں دور سے دیکھنے والے اس تذبذب میں پڑے ہیں کہ ان سٹیشنز پر ووٹ پھر کس نے ڈالا تھا؟

برسوں سے ہمارے پارلیمانی امیدوار یہی بیانیے لیے پھرتے ہیں کہ پارلیمان بلوچ کا فورم ہے۔ پھر کہتے ہیں ہمیں ووٹ دو۔ جب نتائج برخلاف توقع آ جائیں یا تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تو احتجاج کی سبھی اقسام، مثلاً شٹر ڈاؤن، پہیہ جام وغیرہ کی کال دیتے ہیں۔ پھر سرگوشی کرتے ہوئے دھاندلی کا الزام لگانے کی ہمت کرتے ہیں۔ بھائی صاحب، آپ جب خود ہی کنفیوژڈ ہیں تو ہماری ڈیلی روٹین میں خلل ڈالنے کیوں آ جاتے ہیں؟

اگر ایسا ہی ہے تو بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے، اگر اتنے ہی پاک دامن ہیں تو دستبردار کیوں نہیں ہو جاتے اور اگر اتنے ہی محب وطن ہیں تو نتائج تسلیم کیوں نہیں کر لیتے؟

چند ہفتے قبل سینیٹ نے اسلام آباد میں پولیس گردی کے خلاف ارکان کو بولنے نہیں دیا لیکن ہمارے صاحب پھر بھی نام کے ساتھ سینیٹر لگوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

اسمبلیوں میں احتجاج، واک آؤٹ نہ جانے کتنے اس شریف انسان نے دیکھے ہیں تاہم عمل کچھ نہیں دیکھا۔ عمل درآمد تو ہمارے رکن قومی اسمبلی نے بھی نہیں دیکھا لیکن پھر بھی حافظے میں ترمیم کر کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے ہمارے صاحب دفتری اوقات سے بھی پہلے پہنچ جاتے ہیں۔

ہمارے رکن قومی و صوبائی اسمبلی صاحب! آپ کے حافظے کی ترمیم آپ کے ٹھیکے پر لیکن ہمارے حافظے میں ترمیم کی کوشش نہ 'کریو'۔ ہو سکتا ہے ہمارا حافظہ کہیں اٹک ہی گیا ہے جو اب نہ اِس پار کا ہے اور نہ ہی اُس پار کا۔

تو ایسی صورت حال میں ہم الیکشن، سلیکشن و دھاندلی کی بُو سے بچنے کے لیے اپنی ناک پر رومال نہ رکھیں تو اور کیا کریں بھلا!

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔