Get Alerts

بے آوازوں کی آواز، گھریلو ملازمین پر تشدد اور سماجی بیداری

حالیہ برسوں میں متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس مسئلے کی سنگینی کو واضح کیا ہے،مثال کے طور پرحال ہی میں راولپنڈی میں ایک 12 سالہ گھریلو ملازمہ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں وہ دوران علاج دم توڑ گئی،فروری 2024 میں فیصل آباد ، نعمت کالونی میں 12 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کا ایک اور افسوسناک کیس سامنے آیا جس میں بچی جاں بحق ہو گئی

بے آوازوں کی آواز، گھریلو ملازمین پر تشدد اور سماجی بیداری

تحریر:(سمیع عبدالرحمنٰ)

معاشرے میں کمزور طبقوں کے تحفظ اور حقوق کی فراہمی وقت کی اشد ضرورت ہے۔ حالیہ کچھ واقعات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ معاشرتی بے ادبی اور عدم تحفظ کی وجہ سے گھر کے افراد، خصوصاً گھریلو ملازمین، شدید مشکلات اور تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔ ایسے واقعات نہ صرف فرد کی ذاتی زندگی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ مجموعی طور پر سماجی نظام کی کمزوری اور اخلاقی زوال کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس مسئلے کی سنگینی کو واضح کیا ہے۔مثال کے طور پرحال ہی میں راولپنڈی میں ایک 12 سالہ گھریلو ملازمہ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں وہ دوران علاج دم توڑ گئی۔ اس واقعے میں متعلقہ  افراد کو گرفتار کیا گیا، لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات کی تکرار معاشرے کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔نومبر 2018 میں راولپنڈی کے ہی ایک علاقے میں ایک 11 سالہ گھریلو ملازمہ کے خلاف تشدد کا کیس سامنے آیا ۔فروری 2024 میں فیصل آباد ، نعمت کالونی میں 12 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کا ایک اور افسوسناک کیس سامنے آیا جس میں بچی جاں بحق ہو گئی اور متعلقہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔یہ واقعات نہ صرف انفرادی افسردگی کا باعث ہیں بلکہ پورے معاشرے کے اخلاقی معیار اور قانونی نظام پر بھی سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔

گھریلو ملازمین اکثر اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے سماجی اور معاشی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ انہیں نہ صرف کام کے دوران مناسب حفاظتی تدابیر کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کی آواز کو سماجی سطح پر اہمیت بھی نہیں دی جاتی۔ ان کے خلاف ہونے والے تشدد اور استحصال کے واقعات نہایت افسوسناک ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ قانون کے نفاذ اور حفاظتی میکانزم کو مضبوط بنانا بے حد ضروری ہے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے اور متاثرین کو انصاف مل سکے۔

معاشرتی سدھار کے لیے ایک جامع نقطہ نظر اپنانا ہوگا جس میں نہ صرف قانونی اصلاحات بلکہ معاشرتی شعور کی بیداری بھی شامل ہو۔ ہر شہری کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ ہر انسان کی عزت اور حقوق کو مقدمیت دی جانی چاہیے۔ تعلیمی اداروں اور میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے مثبت اور معلوماتی مواد فراہم کریں تاکہ عوام میں ہمدردی اور انصاف کے تئیں شعور پیدا ہو۔ اسی طرح،  گھریلولازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر بھی جامع پالیسیاں اور قانون سازی کی جانی چاہیے۔

مزید برآں، معاشرے کے مختلف حلقوں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ایسے واقعات کا ازالہ کیا جا سکے۔ عوامی تنظیمیں، انسانی حقوق کے کارکن اور قانونی ادارے ایک مربوط کوشش میں حصہ لیں، جس کا مقصد گھر یلو ملازمین کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط نظام قائم کرنا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ، گھر مالکان اور ملازمین کے درمیان بہتر رابطے اور شفافیت پیدا کرنا بھی ایک اہم قدم ہے تاکہ دونوں فریقین ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض سے بخوبی واقف ہوں اور کسی بھی غلط فہمی یا بدسلوکی کابروقت ازالہ کیا جا سکے۔

آخر میں یہ بات بھی واضح  رہے کہ معاشرتی ترقی اور سدھار کا انحصار صرف قوانین پر نہیں بلکہ اخلاقی اور سماجی اقدار پر بھی ہے۔ ہمیں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی کوشش کرنی چاہیے جہاں ہر فرد کو انصاف، تحفظ اور عزت میسر ہو،یہ صرف ایک اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ ایک ایسا معیار ہے جس پر  جدید اور پرامن معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے، ہمیں مل کر ایک ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے جو مستقبل میں ہر کمزور طبقے کو درپیش ظلم اور تشدد کا موثر مقابلہ کر سکے۔