جب بھی کبھی فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) میں اصلاحات یا اس کی تنظیم نو کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت افسران کی طرف سے ہوتی ہے۔ نجی شعبہ سے آنے والے آخری چیئرمین سید شبّر زیدی اس کا سامنا کر چکے ہیں۔ اصلاح تنظیم ایف بی آر کے نام پر پاکستان نے عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے بھاری قرضہ جات بھی حاصل کیے مگر ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اپنی جگہ موجود ہیں۔
نگران وزیر خزانہ نے کچھ روز قبل ایف بی آر کے اعلیٰ حکام سے ملاقات میں تنظیم نو، جس کی ایک حالیہ اعلیٰ سطحی میٹنگ میں منظوری دی گئی، پر عمل درآمد کے سلسلے میں بات چیت کی۔ اس ملاقات کے بعد کوئی سرکاری بیان تو سامنے نہیں آیا مگر انلینڈ ریونیو سروس (آئی آر ایس) کے افسران نے ایک معتبر صحافی کو خبر دی کہ اگر نگران وزیر خزانہ نے عمل درآمد میں جلدی کی تو وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جا سکتے ہیں۔
معتبر صحافی کی خبر کے مطابق ایف بی آر کو دو آزاد حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کسٹمز اور آئی آر ایس کے الگ الگ بورڈز ہوں گے۔ پالیسی اور آپریشنز کو الگ کیا جائے گا۔ تنظیم نو کی مزید تفصیلات کچھ اور اخباری خبروں میں بھی دستیاب ہیں۔
تنظیم نو کے بارے میں پھر ایک دفعہ کوئی عوامی بحث نہیں کی گئی اور تمام تر سکیم کو راز میں رکھا گیا ہے۔ کسی بھی ماہر سے مشورہ تک نہیں کیا گیا۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ وردی اور بلاوردی افسران بند کمروں میں بیٹھے ہوئے، اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے، اس طرح کے اہم معاملات پر فیصلے صادر فرماتے ہیں، اگرچہ نا تو وہ منتخب ہیں اور نہ ہی یہ ان کا کام ہے۔ افسوس کہ سیاسی لوگ اس کی مذمت تو دور کی بات کوئی بیان بھی دینے کو تیار نہیں۔ انتخابات میں چند ہفتے باقی ہیں اور کسی سیاسی جماعت کے منشور یا پروگرام میں محصولات کے نظام میں اصلاحات کے ضمن میں کوئی قابل عمل حکمت عملی موجود نہیں، زیادہ تر تو انتخابات کے منسوخ ہونے کے خواہش مند ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے ٹیکس کے نظام میں تنظیمی اصلاحات کے لئے ان ہی کالموں میں دی گئی تجویز کو پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا ہو گا، خاص طور پر اس کالم کو جس میں نیشنل ٹیکس اتھارٹی کے قیام کی ضرورت پر تفصیلاً بحث کی گئی ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایف بی آر اور صوبائی محصولات وصول کرنے والے ادارے پاکستان کے طبقہ اشرافیہ سے ٹیکس لینے میں ناکام ہیں۔ نہ صرف وہ بہت ڈھٹائی سے ٹیکس ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں، بلکہ عام شہریوں کی طرف سے ادا کردہ ٹیکس کی رقوم اپنی پرتعیش زندگی اور غیر ملکی دوروں پر اڑاتے ہیں۔ ایف بی آر اور دوسرے محکمے ان کے گھر کی باندی کی طرح ان کی خدمت بجا لاتے ہوئے غیر ملکی مالیاتی اداروں کو باور کراتے رہتے ہیں کہ عام پاکستانی ٹیکس ادا نہیں کرتے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ، عدلیہ اور دفاعی اداروں کے افسران، کاروباری افراد، سیاست دان، وڈیرے، جاگیردار اور تاجر اپنے ذمے واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کرتے حالانکہ ان کی آمدنی عام پاکستانی کے وہم و گمان سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
اس طبقے کے ہاتھوں یرغمال بنی ریاست کے مالی معاملات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ لاکھوں افراد کو، جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں، روزمرہ کی اشیائے ضرورت پر 18 فیصد تک سیلز ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ملک میں لوگ فاقہ کشی کی وجہ سے مر رہے ہیں، لیکن صدر مملکت، نگران وزیر اعظم، نگران وزرائے اعلیٰ اور نگران وزیروں اور مشیروں کی سکیورٹی، ان کی پرتعیش زندگی اور ڈنر اور غیر ملکی دوروں پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف عوام کے خون کو مزید نچوڑنے کے لیے پٹرولیم اور دیگر اشیا کی قیمت میں اضافہ کرنا معمول کی بات بن چکی ہے۔
غریب اور متوسط طبقہ کو بالواسطہ ٹیکسوں کا ناقابل برداشت بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر پٹرولیم مصنوعات پر 60 روپے فی لیٹر تک سرچارج وصول کیا جاتا ہے۔ اس کا بوجھ حتمی صارف یعنی عام شہری پر پڑتا ہے۔ ملک میں روز افزوں بڑھتی مہنگائی کی وجہ ٹیکسوں کا یہی غیر منصفانہ نظام ہے۔ اس کی وجہ سے صنعت کاری بھی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ بالواسطہ ٹیکس، مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے صنعت کار عالمی منڈی میں دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ ستم یہ ہے کہ عام پاکستانی استعمال کرنے والی ہر چیز پر ٹیکس ادا کرتے ہوئے بھی یہ طعنہ سنتا ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتا۔ بلکہ عام پاکستانی یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کس طرح اور کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے، بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس سے زبردستی ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات پر وصول کیے جانے والے بھاری بھرکم ٹیکس کے باوجود، جو گذشتہ 20 سال کے دوران 25 ٹریلین روپے تھا، کسی حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بنا کر ملک میں تیل کی کھپت کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ تیل کی درآمد کا حجم ملک کی کل درآمد کا ایک تہائی سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ بھاری مقدار میں پٹرولیم مصنوعات درآمد کیے جانے کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہر حکومت کو عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری قرضے لینے پڑتے ہیں۔ اس سے معیشت اور کرنسی پر دباؤ آتا ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایف بی آر کی طرف سے وصول کردہ زیادہ تر ٹیکس درآمدات پر ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے ماضی میں کوئی بھی حکومت غیر ضروری اشیا کی درآمد روکنے کی خواہش نہیں رکھتی تھی۔ قومی خزانے سے درآمدات کے لیے زرمبادلہ استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ان درآمدات پر ٹیکس وصول کر کے حکمران طبقہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا ہے۔
ٹیکس کا یہ ظالمانہ نظام عوام کے لیے بہت اذیت ناک زندگی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ اس کی وجہ سے امیر غریب کے درمیان تفاوت کی لکیر مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے معاشرے کو درپیش بہت سے مسائل مثلاً لاقانونیت، دہشت گردی، بدعنوانی اور ذہنی تناؤ کی بڑی وجہ دولت کی یہی غیر مساوی تقسیم ہے۔ اس تقسیم کی بڑی حد تک ذمہ داری غیر منصفانہ ٹیکس کے نظام پر عائد ہوتی ہے۔ مہذب معاشروں میں بھی تمام لوگ یکساں طور پر امیر نہیں ہوتے لیکن وہاں اس تفاوت کی وجہ سے پیدا ہونے والا احساس محرومی بھی نہیں ہوتا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وصول کیے جانے والے انکم ٹیکس کی شرح میں جی ڈی پی کے تناسب سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ ایف بی آر کے محصولات کا 2022-23 میں 85 فیصد دارومدار بالواسطہ ٹیکسوں پر تھا اور اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ رقم غریب کی رگوں سے نچوڑی گئی۔ تاہم ہمارے اعداد و شمار کے ماہرین عوام سے یہ حقائق پوشیدہ رکھتے ہوئے انہیں اخلاقی دباؤ کا شکار رکھتے ہیں کہ وہ اس ملک کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جس طبقے نے اس ملک کا 85 فیصد بوجھ اٹھایا ہوا ہے، غیر منصفانہ نظام کی وجہ سے غربت کا شکار بھی وہی ہے اور جو طبقہ ملک کو کچھ نہیں دیتا، وہ ان کی خون پسینے کی کمائی پر عیش کرتا ہے۔ یہ صورت حال کب تک چلے گی اور ہم کب تک غیر ملکی قرضے لینے کو اپنی معیشت کی جادوگری سمجھتے رہیں گے؟
ٹیکس ڈائریکٹری 2019 کے مطابق اس کے بعد سے اس کی اشاعت ہی نہیں ہو رہی، صرف چند ہزار افراد نے ایک ملین روپے سے زائد ٹیکس ادا کیا۔ اگر کہیں ایف بی آر ارکانِ پارلیمنٹ، جج حضرات، اعلیٰ سرکاری افسران، دولت مند کاروباری افراد اور دیگر پیشہ ور حضرات، جیسا کہ مہنگے ڈاکٹرز، وکلا اور ماہرِ تعمیرات کی طرف سے ظاہر کردہ اثاثے عوام کے سامنے پیش کر دے تو عوام دیکھیں گے کہ ان افراد نے اپنے اثاثوں کی نسبت کتنا ٹیکس ادا کیا ہے۔ ایف بی آر پر یہ قومی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کرے بلکہ عوام کے پاس اس سے دستور پاکستان کے آرٹیکل 19 اے کے مطابق بازپرس کرنے کا بنیادی حق ہے کہ آخر اس کے ہاتھ ان متمول افراد تک کیوں نہیں پہنچ پاتے؟
درحقیقت ہمارے ہاں سماجی ناانصافی اور ٹیکس کا موجودہ نظام ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اس سے نہ صرف ملک کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ عوام میں بے چینی اور مایوسی بھی بڑھ رہی ہے۔ ملک کی بھاری رقم جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا، وہ غیر ملکی بینکوں میں جمع ہے۔ اسے کون ٹیکس کے دائرے میں لائے گا اور کشکول توڑنے کی بات کرنے والے ٹیکس کا نظام کب درست کریں گے؟ جب تک ایسا نہیں ہو گا، ہم ایک ہی شیطانی چکر میں پھنسے رہیں گے۔ چار دن کی عارضی چاندنی کے بعد پھر مستقل اندھیری رات ہو گی تاوقتیکہ مستقل اجالے کا اہتمام نہ کر لیا جائے۔