اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وہی ملک ترقی کرتے ہیں جہاں انصاف کی فراہمی یقینی ہو۔ انصاف کا نظام ہی جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق کی پاسداری اور سیاسی استحکام کو یقینی بناتا ہے۔ جب یہ تمام شرائط پوری ہو جائیں تو عوام کے اندر وہ اعتماد پیدا ہوتا ہے جس سے حق بات کہنے اور سننے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر عالمی سطح پر اعتماد بحال ہو کر بیرونی سرمایہ کاری کی راہیں ہموار ہو جاتی ہیں۔ حکومت نے شاید اسی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بحیثیت اگلے چیف جسٹس کا نوٹیفکیشن وقت سے پہلے جاری کر دیا ہے تا کہ غیر یقینی صورت حال ختم ہو جائے۔ ان کے چیف جسٹس بننے سے یقیناً حالات بہتر ہوں گے مگر مکمل غیر جانبداری اور شفافیت کے لئے عدالتی اصلاحات کی ضرورت ہو گی جس میں ججز کی تعیناتی کے عمل کو مؤثر بنانے کی شدید ضرورت ہے۔
نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 16 ستمبر 2023 کو بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ چارج سنبھالیں گے اور امید کی جا رہی ہے کہ یہاں سے پاکستان میں بہتری کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ میں کسی مفروضے کی بنیاد پر یہ نہیں کہہ رہا بلکہ اس کے گواہ ان کے وہ فیصلے ہیں جن کی بنیاد پر کوئی بھی اس ملک کا مقتدر حلقہ ماضی میں ان سے خوش نہیں رہا۔ اس کی وجہ ان کا غیر جانبدارانہ اور شفاف انصاف ہے جس کے ہم عادی نہیں ہیں۔
فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر پاکستان تحریک انصاف، فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان ناراض ہو گئے تھے کیونکہ اس میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر سیاست میں دخل اندازی بند کریں اور انہوں نے ذمہ داران کے خلاف ایکشن لینے کا بھی حکم دیا تھا جس کی وجہ سے ان کو عہدے سے ہٹانے کی کوششیں تیز تر ہوتی دکھائی دیں۔ اس کوشش میں کئی مفاد پرست ججز کی لاٹریاں بھی نکلیں اور مستقبل کے بندوبست کے پیش نظر ججز کی تعیناتیوں اور بھرتیوں کی منڈی لگی رہی جس کے نتائج آج ہم بھی بھگت رہے ہیں۔
میمو گیٹ کے فیصلے پر پیپلز پارٹی ان سے ناراض ہوئی۔ کوئٹہ بم دھماکے کے معاملے پر مسلم لیگ ن کی حکومت ان سے ناراض ہوئی تھی۔ ابھی ان کو آڈیو لیکس کمیشن کی سربراہی دینے پر سپریم کورٹ کے اندر پریشانی لاحق ہے جس کو محض ایک پریکٹس کی بنیاد پر اپنی پریشانی کو سہارا دینے کے لئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اسی طرح قاضی فائز عیسیٰ کو وکلا کی ہڑتال سے سخت چڑ ہوتی ہے کہ سائلین سے بھاری فیس لے کر جب سائلین عدالت میں اپنی تاریخ پر آئیں تو وکلا کی طرف سے ان کے ساتھ پیشی پر جانے سے اس لئے انکار کر دیا جائے کہ وہ ہڑتال پر ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ اسے انتہائی ظالمانہ رویہ قرار دیتے ہیں۔
پارلیمان کی طرف سے ان کو دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر مدعو کیا گیا اور اس پر ان کو ان کے مخالفیں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ وہاں انہوں نے حکومت کو واضح پیغام دے دیا تھا کہ اگر آپ کل میرے فیصلوں سے کوئی بے جا نرمی یا اصولی مزاحمت سے بچنے کی امید وابستہ رکھے ہوئے ہیں تو وہ ختم کر دیں۔
پھر ان سے مشورہ کئے بغیر انہیں فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کو سننے والے بنچ میں شامل کر لیا گیا جو ان کی دلیری اور بہادری کی ایک اور مثال بن گئی۔ ان کو شامل کرنے کی وجہ ایک سلگتی ہوئی خواہش تھی جس پر ان سے مہر ثبت کروانے کی کوشش کی گئی تھی کیونکہ وہ فوجی عدالتوں بارے ایک واضح مؤقف رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی آئین و قانون کی پاسداری کی مثال نے سب کو بے نقاب کر دیا اور انہوں نے وہ ساری باتیں بھری عدالت کے سامنے رکھ دیں جو چہ مگوئیوں میں کہی جا رہی تھیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے آج کل بنائے جانے والے تمام بنچز پر اپنی عدالتی رائے کو واضح کر دیا کہ ان کے نزدیک بنچز قانونی طور پر جائز ہی نہیں ہیں اور پھر ان کے اس نوٹ کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیا گیا جس سے تمام نیتوں کی وضاحت قوم کو مل گئی کہ کس طرح سے سپریم کورٹ کے اندر لوگ ان کی قانونی رائے سے خائف اور پریشان ہیں۔
جس بندے نے خود کوئی پلاٹ نہیں لیا، وہ پلاٹوں کی بندر بانٹ اور ریاستی وسائل سے کھیلنے والوں کے لئے کیسے قابل برداشت ہو سکتا ہے؟ انہوں نے حفاظ کرام کو 20 نمبروں سے اس لئے محروم کر دیا کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس سے اقلیتوں کے حقوق کی تلفی ہوتی ہے۔
ان کے خلاف معزولی کا ریفرنس بھی ان سے ظالموں کو ممکنہ لاحق خطرات کے پیش نظر ہی سامنے آیا تھا جو ان کی انصاف کے معاملے میں شفافیت سے خائف تھے۔ اس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے خاندان کو رسوائی اور پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر اللہ کی طرف سے ان کی بے گناہی کا فیصلہ بھی ہوا۔ انہوں نے ایک وقت پر استعفیٰ بھی دینے کا ارادہ کر لیا تھا مگر پھر اس کو صرف اور صرف اس ملک اور عوام کی خدمت کی خاطر ترک کر دیا۔ اب اگر ان کو خدمت کا موقع مل رہا ہے تو یقیناً وہ عوام کی مشکلات کو کم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
ان کے خلاف ریفرنس میں ملوث لوگ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہے۔ سب ایک دوسرے کو بے نقاب کرتے رہے اور اپنی صفائی میں تسلیاں دینے کی کوشش کرتے رہے۔ اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے بیانات بھی تاریخ کا حصہ ہیں جن میں وہ قصورواروں کو بے نقاب کرتے رہے۔
27 اپریل 2021 کو میرا ایک کالم 'مجاہد قاضی فائز عیسیٰ' کے عنوان سے چھپا تھا جس میں قاضی صاحب کی ذات میں موجود ان صلاحیتوں کا ذکر کیا گیا تھا جو ایک جج کے اندر ہونی چاہئیں۔ مثلاً اسے عہدے کی خواہش نہ ہو، وہ اہلیت اور قابلیت رکھتا ہو اور پھر انصاف پر مبنی فیصلے بھی کرتا ہو۔ اسی کالم سے ایک پیراگراف ریفرنس کے طور پر ملاحظہ فرمائیں؛
'قلات کا شہزادہ، بین الاقوامی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل جس کو گھٹی میں قضاء ملی اور جب ان کو قاضی کے عہدے کے لئے چنا گیا تو ایک اطلاع کے مطابق ان کی ماہانہ آمدنی 3 کروڑ تھی۔ ان کے کھاتے میں کئی منفردات جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کو براہ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس لگایا گیا۔ اس تعیناتی کو بعد میں چیلنج بھی کیا گیا مگر وہ اس سے سرخرو ہوئے اور وہ جن کو نہ تو عزت کی کمی تھی اور نہ مال و دولت کی بلکہ ان کو لانے کا مقصد ہی پاکستان کی عدلیہ کو ایک ایسا جج دینا تھا جس کی واقعی ضرورت تھی'۔
آج ہماری وہ ضرورت صحیح معنوں میں پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ انہیں دھمکیاں بھی ملتی رہیں مگر پھر بھی وہ اپنی رہائش سے پیدل سپریم کورٹ واک کرتے پہنچ جاتے ہیں۔ جن کا خدا اور موت کے دن پر مصمم یقین ہے۔ جن کے نزدیک خوشامد اور تعلق انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ جس کے نزدیک آئین و قانون اور اس کی پاسداری کا حلف ہی انصاف کا معیار ہو۔ پھر اس سے بہتری کی امید کیوں نہ لگائی جائے؟
اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ بہتری کی امیدوں کے لئے ماحول کی زرخیزی کے آثار موجود ہیں مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس سازگار ماحول سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے مثبت اور جائز اصلاحات کے ذریعے سے لاحق خطرات کا سد باب کر سکے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کا احترام بحال کرنے کے ساتھ ساتھ عام شہری کا احترام بھی بحال کریں گے۔ نظام انصاف کے ماحول میں لاء آف ٹارٹ پر عمل درآمد عدلیہ کی ترجیحات میں شامل ہو گا تا کہ اس ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جا سکے اور الزامات کی ثقافت اور سیاست کا خاتمہ ہو۔ ریاست کے وسائل اور طاقت کے بل بوتے پر بنائے گئے قلعے ٹوٹیں گے اور سول بالادستی کو فروغ ملے گا۔
اس کے لئے سیاست دانوں کو بھی پارلیمان کو مضبوط بنانا ہو گا۔ اپنا خوف ختم کر کے احتساب کے عمل میں آزاد اور مضبوط عدلیہ کے قیام کے لئے ان کا ساتھ دینے کی تیاری کرنی ہو گی۔ فیض آباد دھرنا کیس جیسے فیصلوں پر عمل درآمد کے لئے حکمت عملی کو یقینی بنانا ہو گا تا کہ اس ملک کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کا حساب برابر کر کے اس باب کو ہمیشہ کے لئے بند کیا جا سکے۔
اس کے لئے سازگار ماحول 16 ستمبر کے بعد مہیا ہونے والا ہے اور اس کی راہ میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی بظاہر کوئی رکاوٹ دیکھنے میں نہیں آ رہی مگر اس کا حوصلہ بہرصورت پارلیمان کی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنا ہو گا۔ اداروں پر محض تنقید ہی نہیں کرنی ہوتی بلکہ ان کو مضبوط بنانے کے لئے اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں۔ تب ہی آئین کی بالادستی کے ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔ آئین کے اندر چیک اینڈ بیلنس سسٹم کو مکمل طور پر فعال اور مؤثر بنانے کے لئے اصلاحات لانے کا ماحول بھی سازگار ہو گا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نظام کو بہتر بنانے کا بہترین موقع میسر آئے گا۔
آزاد عدلیہ کے لئے احتساب کے عمل کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے جس کا آغاز بھی نظام عدل سے ہی ہونا چاہئیے۔ جسٹس فائز عیسیٰ ججوں کی تعیناتی اور بنچز کی تشکیل وغیرہ جیسے معاملات بارے اپنی سوچ کا اظہار متعدد بار کر چکے ہیں اور وہ یقیناً اس کے لئے کوشش بھی کریں گے مگر پارلیمان کو بھی اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔
سپریم کورٹ کے اندر کی تقسیم محض چیف جسٹس کے بدل جانے سے ختم نہیں ہو جائے گی۔ اس تقسیم کی بنیاد وہ بندوبست ہے جس کو دہائیوں پر مشتمل اقتدار کے خواب کے پیش نظر عمل میں لایا گیا۔ عدلیہ کے ساتھ اس اقتدار کو ہم آہنگ بنائے رکھنے کے لئے ہم خیال ججز کو بھرتی کیا گیا اور اعلیٰ عدلیہ میں تعینات کیا گیا۔ اس کارروائی کے مبینہ شواہد بھی گردش کر رہے ہیں اور ان کی سب سے بڑی وجہ ان تعیناتیوں میں سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی ہے جس نے ان تمام خدشات کو جنم دیا۔
اب ان مبینہ شواہد کی بنیاد پر عدالتوں کی غیر جانبداری اور شفافیت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی بھی ضروری ہے تا کہ عدالتوں پر عوام کا اعتماد بحال کر کے ادارے کی ساکھ کو بچایا جا سکے۔ اس ضمن میں قاضی فائز عیسیٰ پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کے لئے سپریم کورٹ کے ججز اور حکومت کو بھی ان کا ساتھ دینا چاہئیے تا کہ ملک میں آئین و قانون کی پاسداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ وہ تمام فیصلے جو ماضی میں عدلیہ کی بدنامی کا سبب بنے، ان سب کی تلافی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔