1996 سے بالعموم اور 2008 سے بالخصوص ہمیں یہ بتایا جاتا رہا کے ہم ایک غیور قوم ہیں، ہمارے جیسی اور کوئی قوم اس دنیا میں پائی نہیں جاتی، ہم دنیا میں سب سے زیادہ چندہ دینے والی اور محنتی قوم ہیں، نہ صرف قوم بہترین ہے بلکہ ہمارے ملک پاکستان میں وہ تمام وسائل موجود ہیں جو ملک و قوم کی تعمیر وترقی کے لیے ضروری ہیں، بس مسئلہ ہے تو وہ صرف یہ کہ ہمارے ملک کے حکمران چور اُچکے اور ڈاکو ہیں اس لیے ہم ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
اگر ایک ایماندار شخص ہمارے ملک کا حاکم بن جائے تو ہم دن دگنی رات چوگنی ترقی کریں گے، پھر 2018 کے انتخابات کے بعد آخر وہ وقت آ گیا جب ایک ایماندار شخص پاکستان کا وزیراعظم بنا، وزیراعظم بننے سے پہلے ایسے ایسے وعدے کیے گئے کہ سننے والے آنکھوں میں عظیم مملکت کے شہری بننے کے خواب سجا بیٹھے۔ ان وعدوں کی فہرست تو کافی طویل ہے لیکن کچھ بڑے وعدوں میں بیرون ممالک سے لوٹا ہوا دو سو ارب ڈالر واپس لانا، چوروں کو جیلوں میں پہنچانا، پی آئی اے اور سٹیل مل کو منافع بخش بنانا، ایک کروڑ نوکریاں دینا اور پچاس لاکھ گھر بنانا سب سے اہم ہیں۔
ایماندار وزیراعظم کی حکومت آئے دو سال ہونے کو ہیں لیکن وعدوں کی فہرست میں شامل ایک بھی وعدہ ابھی تک پورا نہ ہو سکا، بیرون ممالک سے دو سو ارب ڈالر تو کیا ایک روپیہ بھی واپس نہ آ سکا، پی آئی اے بدستور خسارے میں ہے، اسٹیل مل بیچنے کی تیاری مکمل کی جا چکی ہے، حکومت دو سال گزرنے کے باوجود ایک بھی نوکری دینے میں ناکام رہی اور پچاس لاکھ گھر ناجانے کب بنیں گے۔
جہاں پہلے یہ کہانی سنائی جاتی رہی کہ عوام غیور جبکہ حکمران چور ہیں، اب پے در پے ناکامیوں کے بعد ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ حکمران تو ایماندار ہے لیکن عوام جاہل اور کرپٹ ہے، پیٹرول نہیں ملتا تو بیچارہ وزیراعظم کیا کرے، چینی نہیں ملتی تو بیچارہ وزیراعظم کیا کرے، آٹا نہیں ملتا تو بیچارہ وزیراعظم کیا کرے، کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو بیچارہ وزیراعظم کیا کرے، پنجاب پولیس میں کوئی اصلاحات نہیں کی گئی تو بیچارہ وزیراعظم کیا کرے، پولیس دن دیہاڑے ساہیوال میں قتلِ عام کرے تو بیچارہ وزیراعظم کیا کرے، ٹھیکیدار کی اولاد ملک میں دہشت پھیلائے تو بیچارہ وزیراعظم کیا کرے، عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا تو بیچارہ وزیراعظم کیا کرے۔
بیچارے وزیراعظم کو چاہیے کے سوشل میڈیا کی ظاہری چمک والی دنیا سے باہر نکلے، جسے خوش کرنے کے لیے وہ کبھی وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچتے ہیں اور کبھی احتساب کے نعرے لگاتے اور کبھی مرغیاں اور انڈے بانٹنے کا اعلان فرماتے ہیں۔ اگر وزیراعظم اتنا ہی بیچارہ ہے کہ وہ اصلاحات پر عملدرآمد تو ایک طرف کوئی اصلاحاتی فارمولا بھی پیش کرنے میں ناکام رہا ہے تو براہ مہربانی اتنا احسان فرما دیں کہ بولنے سے پہلے سوچ ہی لیا کریں اور وزیراعظم کے ایماندار ہونے کا منجن بیچنا بند کریں، اس قوم کے حال پر رحم فرمائیں کیونکہ وزیراعظم کی ایمانداری سے نہ تو انصاف کا نظام ٹھیک ہو گا نہ پنجاب پولیس ٹھیک ہو گی، نہ ہی تعلیم کا نظام بہتر ہو گا۔