قریب 25 منٹ تک نیلے کپڑوں میں ملبوس شخص کٹہرے میں کھڑا جج صاحبان کی برہمی کا سامنا کرتا رہا۔ اس کی پشت تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرے ایک ہال کی طرف تھی اور اس کے سامنے ایک اونچا بنچ موجود تھا جہاں سے تند و تیز سوالات اور تبصرے جاری تھے جن کے اسے جوابات دینے تھے۔ اس ہال کی تاریخ ڈرامائی لمحات سے بھری پڑی ہے لیکن یہاں بھی ایسے واقعات کم ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان بدھ کی صبح سپریم کورٹ آف پاکستان کے ہال نمبر 1 میں ایک عجیب وغریب صورتحال سے دوچار تھے۔ ابھی دو گھنٹے قبل ہی چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ملک کے چیف ایگزیکٹو کو اپنی عدالت میں طلب کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ ان سے اس بات کا جواب طلب کیا جا سکے کہ ان کی حکومت نے 6 سال قبل اے پی ایس پشاور سکول کے بچوں کے المناک اور دل دہلا دینے والے قتل اور سکیورٹی میں لاپروائی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی۔
احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے وزیر اعظم اپنے وزرا کے وفد کے ہمراہ عدالت عظمیٰ پہنچے اور اب اپنے پہلو میں اٹارنی جنرل کے ساتھ تین ججوں کے سامنے کھڑے تھے۔
تاہم، آج وزیر اعظم کو ججز کے سامنے اپنی بات کرنا مشکل ہو رہا تھا کیونکہ ان کی بات کو بار بار کاٹا جا رہا تھا اور وہ ایسی مداخلتوں کے عادی نہیں ہیں۔ وزرائے اعظم کو ایسی مداخلتوں کی عادت نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ریاست کی اعلیٰ ترین عدالت تھی، وزیر اعظم کے سامنے اس کا سب سے بڑا جج تھا اور وہ قطعاً لفاظی اور بیانات سننے کے لئے تیار نہیں تھا جس پر وزیر اعظم صاحب کو ملکہ حاصل ہے۔ مکالمہ تند و تیز تھا۔ اور سوال تیر جیسے سیدھے۔ ججز وقت ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھے اور وزیر اعظم کے پاس سوالوں کے واضح جوابات دینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
ایک بات صاف تھی: وکلا، وزرا اور صحافیوں سے بھرے اس کمرۂ عدالت میں وزیر اعظم تنہا تھے۔
لیکن یہ تنہائی صرف اس عدالت کے سامنے حاضری تک محدود نہیں۔ پچھلے کچھ ہفتوں میں ریڈ زون کے مزاج میں غیر محسوس انداز میں تبدیلی آئی ہے۔ یہ غیر محسوس ضرور رہی ہوگی مگر اسے محسوس کیے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ پہلے اس کے بارے میں اشارے ملے۔ PTI کے وزرا اور اراکینِ پارلیمنٹ کے غرور میں کچھ کمی آتی ہوئی دکھائی دی اور ان کے استہزائیہ انداز میں ذرا نرمی نظر آئی۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو ان میں کچھ عاجزی کی رمق، تحمل کی جھلک اور، ہاں، اپنی کمزوری کا ادراک بھی دکھائی دیتا تھا۔ اور اگر آپ سونگھنے کی کوشش کریں تو چھپے ہوئے خوف کی بو بھی آ رہی تھی۔
اس کے بعد مفروضے خودبخود حقیقت میں بدلنے لگے۔ اور یہ حقیقت اب حکومتی اراکین کی تعداد میں کمی میں عیاں ہے۔ کس نے سوچا تھا کہ حکومت کو ایک ہی دن میں قومی اسمبلی میں پے در پے شکستیں ہوں گی؟ کیا ان شکستوں کو حکومت کی پسپائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ شاید نہیں۔ لیکن کیا ان میں آنے والے دنوں کی نشانیاں ہیں؟ بالکل ممکن ہے۔
بلکہ شاید ایسا ہی ہے۔ ایک ایسے ماحول میں کہ جہاں اسٹیبلشمنٹ کے تیور دیکھتے ہوئے سیاسی حالات بدلتے ہیں، ہر واقعے کی نئی نئی تشریحات سامنے آ رہی ہیں۔ یکایک ایک طاقتور حکومت انتہائی کمزور حکومت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اگر پہاڑی کی دوسری جانب کوئی ایسا خطرہ موجود ہے جو اس کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہو تو فی الحال وہ مخفی ہے۔ لیکن پہاڑی کے پیچھے سے آنے والی غراہٹوں کی گونج سماعتوں سے چھپی نہیں رہ سکتی۔
ان غراہٹوں کا جواب دینے کے لئے جمعرات کے دن پارلیمنٹ کا ایک مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ثابت یہ کیا جانا تھا کہ حکومت اب بھی مضبوط ہے اور تمام لوگ کان کھول کر سن لیں کہ یہ کہیں نہیں جا رہی۔ منصوبے کے مطابق بدھ کی شام وزیر اعظم نے اپنے اراکین سے خطاب کیا تاکہ وہ مشترکہ اجلاس کے لئے تیار ہوں، جیسے جنرل میکسیمس ڈیسیمس مریڈیئس اپنے سپاہیوں کے سامنے گھوڑے پر بیٹھا چلا رہا ہو 'آج جو کچھ تم یہاں کرو گے اس کی گونج قیامت تک باقی رہے گی'۔ بس فرق یہ تھا کہ اس تحریک دلانے والی تقریر کے بعد جنگ ملتوی ہو گئی۔
ہوا کیا؟
معاملہ یہ ہے کہ یہ بھی اس تصویری معمے کی ایک کڑی تھی جو اپنی جگہ پر پہنچ چکی ہے۔ بدھ کو بھی، منگل ہی کی طرح، تعداد ہی کا مسئلہ تھا جو کسی صورت مکمل نہیں ہو کے دیتی تھی۔ وزیر اطلاعات نے آخری وقت پر اجلاس ملتوی کیے جانے کے معاملے پر ایک کہانی عوام کو بیچنے کی کوشش کی کہ حکومت اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مزید سوچنے کے لئے وقت دینا چاہتی تھی۔ لیکن یہ کہانی اصل حقیقت کو نہیں چھپا سکی کہ حکومت کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ مشترکہ اجلاس میں اس کو ایک اور شکست ہونے جا رہی تھی۔ یہ صحیح معنوں میں پسپائی ہوتی۔
لیکن حکومت کی تو اکثریت ہے۔ تو پھر تعداد کہاں گئی؟
کچھ عجیب ہو رہا ہے۔ آپ اس کی نشاندہی کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن کر نہیں سکتے۔ یہ مائع کی طرح ہے اور ہر گھنٹے میں اپنی شکل بدل رہی ہے۔ کہا تو یہی جا رہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین معاملے پر اختلاف ہے اور حکومت کے اتحادیوں کے مطابق وہ اس پر مکمل طور پر قائل نہیں ہوئے۔ یہ درست ہے، لیکن مکمل سچ نہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں تاثر بن رہا ہے کہ حکومت پر زمین تنگ ہو رہی ہے۔ بہادر ہیرو لگاتار اپنا کلہاڑا گھماتا چلا جا رہا ہے مگر اس کے ساتھی ایک ایک کر کے گر رہے ہیں۔ دشمن ایک ایک قدم آگے بڑھ کر گھیرا تنگ کرتا جا رہا ہے۔ ہیرو ایک کے بعد ایک دشمن کو گراتا جاتا ہے لیکن اس کے بازو شل ہو رہے ہیں، اس کے کندھے ڈھلک رہے ہیں، اس کی ٹانگیں اب کانپ رہی ہیں۔ انسانی برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
یہ حد شاید ابھی پار نہ ہوئی ہو۔ لیکن علی الاعلان دشمنوں کی فہرست لمبی سے لمبی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ایک الیکشن کمیشن ہے جسے اب دشمن کی صفوں کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کو یکایک زبان مل گئی ہے۔ عوام ڈوبتی معیشت اور خوفناک مہنگائی سے تباہ حال ہیں۔ اور پھر اسٹیبلشمنٹ بھی ہے جس کی ناراضگی کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ حکومت کے پاس اب صرف وزیر اعظم کی قریبی ٹیم بچی ہے، چند الیکٹ ایبل جو قریبی ٹیم کا حصہ نہیں ہیں، اور اتحادی۔ قریبی ٹیم آخر تک لڑے گی۔ قریبی ٹیم تو لڑے گی۔
تو فی الحال جنگ جاری ہے۔ ابھی دشمن غالب نہیں آیا۔ لیکن فضاؤں میں سرگوشیاں خطرے کا پتہ دیتی ہیں۔ ریڈ زون میں حکومتی خواتین و حضرات کونوں کھدروں میں جا کر ایک دوسرے سے چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں کہ ان میں سے کون کون اندھیری راہوں میں لوگوں سے مل رہا ہے۔ دارالحکومت میں خوف کہرے کی طرح گر رہا ہے۔
اس سے پہلے کہ دھند مزید گہری ہو جائے، حکومت کو شہر کا کنٹرول واپس اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ لیکن ہر نیا دن نئے تنازعات، نئے اختلافات اور ایک صفحے پر نہ ہونے کی نئی علامات کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ جنرل بلال اکبر کو سعودی عرب میں ان کے عہدے سے تعیناتی کے چند ہی ماہ بعد کس نے علیحدہ کر دیا؟ اور کیوں؟ ان حلقوں میں اضطراب ہے۔ کس نے آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر مسعود خان کو امریکہ میں سفیر لگایا؟ اور متعلقہ افراد کو اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا؟ حلقوں میں اضطراب ہے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی کئی چیزیں ہیں۔ وقت پر معاملات کو ٹھیک کر لیا جاتا تو یہ اس نہج کو نہ پہنچتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اب بھی وقت ہے۔ لیکن زیادہ نہیں۔
فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔