خفیہ ادارے عمران کو اطلاعات دے کر سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں

خفیہ ادارے عمران کو اطلاعات دے کر سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں
اداروں کی جانب سے بڑی لاؤڈ اینڈ کلیئر وضاحتیں آ چکی ہیں کہ وہ اب 'اے پولیٹیکل' ہو چکے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس بریفنگ میں واضح کیا کہ فوج نے اب بڑی واضح پالیسی اپنا لی ہے کہ سیاست میں مداخلت ختم کر دی جائے اور ادارے کو آئینی حدود تک محدود کر لیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں یہ بیان بھی سامنے آیا کہ سینیٹ انتخابات کے بعد سے اگر کوئی مداخلت ہوئی ہے تو ہمیں بتایا جائے، گویا یہ تسلیم کیا گیا کہ ماضی میں سیاسی مداخلت ہوئی ہے۔

یہ تمام باتیں سننے میں تو قابل تحسین تھیں مگر کچھ سوال بھی ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ کیا واقعی ادارے کے ہر فرد کو یہ فیصلہ قبول ہے؟ کیا ادارے کے تمام افراد نے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے؟

سیاسی رہنماؤں کے بیانات اکثر و بیشتر سیاسی ہی ہوتے ہیں جنہیں عرف عام میں پاکستان میں جھوٹا مانا جاتا ہے۔ مگر یہ بات نظر انداز کرنے کی نہیں کہ اگر ملک کا کوئی ایسا سیاسی رہنما یہ بیان دے جو ریاست کی اہم ذمہ داری نبھا رہا ہو یا نبھا چکا ہو۔ عمران خان سے ہزاروں اختلافات کئے جا سکتے ہیں مگر ان کی یہ بات نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ وہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو رہے ہیں اور تمام انٹیلی جنس ادارے ان کے ماتحت کام کر چکے ہیں۔ لہٰذا عمران خان کے بیانات کو سرے سے مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔

عمران خان نے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بار بار اس بات کو عوامی جلسوں سمیت ہر جگہ پر بیان کیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افراد اب بھی ان سے رابطے میں ہیں اور ان کو آنے والے حالات اور سازشوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ اب حال ہی میں عمران خان نے عالمی میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز میں بھی اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ ان پر ہوئے حملے کے بارے میں انٹیلی جنس اداروں کے اندر سے ان کو بتا دیا گیا تھا کہ ان پر حملہ ہو گا۔

عمران خان نے حملے کے بعد بھی اس بات کا تذکرہ کیا کہ چار لوگوں نے ایک کمرے میں بیٹھ کر میرے خلاف سازش کی۔ دوسری جانب ایف آئی آر کے معاملے میں عمران خان نے جہاں اپنے سیاسی مخالفین کو نامزد کیا، وہیں ایک حاضر سروس سینیئر آرمی آفیسر کو بھی کھلےعام اقدام قتل میں ملوث قرار دے دیا۔ کیا یہ معمولی بات ہے؟ اگر تو حاضر سروس جنرل کا اس حملے سے تعلق نہیں تو کیا آئی ایس پی آر کی وضاحت اس حوالے سے کافی ہے؟ کیا حکومت کو اس الزام پر سخت کارروائی اور تفتیش نہیں کرنی چاہئیے کہ آخر ملک کا سابق وزیر اعظم اپنے اوپر ہوئے حملے میں کس بنیاد پر اتنے سینیئر آفیسر کا نام لے رہا ہے؟

اب تو بات ایف آئی آر سے آگے نکل کر امریکی اور ترکش میڈیا گروپس کو دیے انٹریوز تک جا پہنچی ہے۔ عالمی میڈیا عمران خان کو صرف ایک سیاسی لیڈر کے طور پر نہیں بلکہ پاکستان جیسی ایٹمی طاقت کے سابق چیف ایگزیکٹیو کے طور پر دیکھتا ہے۔ لہٰذا عمران خان کی یہ سٹیٹمنٹ کوئی سادہ سا بیان نہیں ہے کہ ان پر حملہ ہونے سے قبل انٹیلی جنس میں ہی موجود افراد نے ان کو اس سے آگاہ کر دیا کہ آپ پر حملہ ہونے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انٹیلی جنس کا اگر کوئی شخص عمران خان کو یوں خبریں دے رہا ہے تو وہ کس بنیاد پر دے رہا ہے؟

عمران خان نہ تو اب وزیر اعظم ہیں اور نہ ہی وزیر داخلہ، اگر اس طرح کی کوئی وارننگ انٹیلی جنس کے پاس موجود تھی بھی تو یہ بات حساس اداروں کو عمران خان کے بجائے ملک کے موجودہ چیف ایگزیکٹیو شہباز شریف یا وزیر داخلہ سے شیئر کرنی چاہئیے تھی۔ آئین تو واضح کرتا ہے کہ انٹیلی جنس ادارے چیف ایگزیکٹیو اور وازرت داخلہ کے ماتحت ہیں، تو پھر انٹیلی جنس ادارے کون سے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے یہ تمام باتیں آج بھی عمران خان کو بتا رہی ہیں؟ کیا یہ سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں ہے؟

اس ساری کہانی میں حیرانگی کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اور ادارے اس حوالے سے کوئی ایکشن لیتے دکھائی نہیں دے رہے۔ کیا ان کے نزدیک ان الزامات کی کوئی اہمیت ہی نہیں؟ عالمی میڈیا اس بات پر تبصرے کر رہا ہے اور ہمارے اداروں پر بہتان طرازی ہو رہی ہے۔ عالمی دنیا عمران خان کے بیانات کو لے کر پاکستان اور اس کے اداروں پر سوال اٹھا رہی ہے مگر یہاں حکومت اور متعلقہ اداروں کے نزدیک یہ معاملہ معنی ہی نہیں رکھتا اور اس کہانی میں سب سے تشویش ناک بات دراصل یہی ہے۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@