سیاست مفادات كا كھیل سمجھا جاتا ہے۔ بڑے بزرگ اور استاد كہتے ہیں كہ سیاست میں نہ تو مستقل دشمن ہوتے ہیں اور نہ ہی دوست اس لئے احتیاط لازم ہے۔ سیاست دان عوام كا نمائندہ ہوتا ہے اس لیے اچھا سیاست دان ہمیشہ روادار اور دور اندیش ہوتا ہے۔
اگر ہم متحدہ برصغیر كی سیاست پر نظر دوڑایں تو كانگریس اور مسلم لیگ دونوں كے راہنماؤں كے آپس میں سیاسی اور نظریاتی اختلافات تھے لیكن اس كے باوجود ایک دوسرے كا لحاظ تھا۔ كسی سیاسی مخالف كی ماں، بہن، بیوی، بیٹی كو سیاست میں نہیں گھیسٹا جاتا تھا۔ پاكستان (پرانا پاكستان) كی تخلیق ہوئی تو سیاسی اختلافات نئے بھی بنے اور كچھ پرانے بھی برقرار رہے۔
1965 میں مادر ملت فاطمہ جناح فوجی آمر ایوب خان كے مقابلے میں اپوزیشن كی متفقہ صدارتی امیدوار تھیں۔ ایک جلسہ كے دوران جب وہ تقریر كرنے كے لئے سٹیج پر پہنچیں تو ولی خان نے نہ صرف ان كا كھڑے ہو كر استقبال كیا بلكہ مشرقی روایت كے مطابق ان كے سر پر شفقت سے ہاتھ بھی پھیرا اور اپنی نشست بیٹھنے كے لئے پیش كی اور سٹیج پر كوئی دوسری كرسی نہ ہونے كی وجہ سے وہ خود كھڑے رہے۔ یاد رہے كہ ولی خان قائداعظم كے سیاسی حریف اور ناقد تھے۔
خان عبدالقیوم خان تعلق مسلم لیگ سے تھا اور وہ ذوالفقار علی بھٹو كی اتحادی حكومت میں وزیر تھے۔ جب ولی خان گرفتار ہوئے تو بیگم نسیم ولی خان نے ولی خان كی رہائی كے لئے تحریک چلائی۔ بھٹو نے ان كے لئے غلط جملے ادا كیے تو خان عبدالقیوم نے كہا كہ ہمارا اختلاف ولی خان سے ہے بیگم نسیم ولی سے نہیں، تو اقتدار كے نشے میں مست بھٹو پر كوئی اثر نہ ہوا۔ بعد میں خان عبدالقیوم نے اس "گستاخی" كی بہت بھاری قیمت چكائی۔
نواز شریف نے اپنی سیاسی حریف كے لئے سخت جملے ادا كیے اور اس وقت جو نواز شریف كے ساتھی تھے اور آج تبدیلی سركار كا حصہ ہیں۔ انہوں نے بی بی شہید كے بارے جو الفاظ استعمال كیے وہ یہاں تحریر بھی نہیں كیے جا سكتے ہیں۔ لیكن پھر وقت بدلا نواز شریف كو اكتوبر 1999 میں جب زبردستی مارشل لا كے ذریعے اقتدار سے الگ اور بعد میں جلا وطن كیا گیا تو پھر یہ جلاوطنی انہیں یہ سكھا گئی كہ رواداری كس چڑیا كا نام ہے؟
جلا وطنی كے بعد جب 2007 میں بی بی اور نواز شریف وطن واپس آئے اور دسمبر 2007 میں جب بےنظیر شہید ہو گئیں تو نواز شریف آنسو بہاتے اور مخالف سیاسی كاركنان كو حوصلہ دیتے نظر آئے۔
2013 میں نواز شریف ایک بار پھر برسراقتدار آئے تو اس دفعہ سامنا ایک نئی ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت كے ہینڈسم اور فین كلب كی محبت میں گرفتار عمران خان اور ان كے "ٹائیگرز"سے تھا۔ اس بار حریف بھی نیا تھا اور ان كا حوصلہ بھی جوان تھا بلكہ ابھی تک برقرار ہے۔ اس كے بعد 2014 میں دھرنے كے دوران كپتان نے نئی سیاسی صرف و نحو متعارف كروائی جو صرف گالیوں اور الزام تراشی پر مبنی تھی۔ اس كا ماركیٹ میں آنا تھا كہ ہر سیاسی حریف سیاسی ناقد اہل و عیال سمیت گالیوں سے نوازا گیا۔
2016 میں پاناما لیكس آئیں اور اس كے بعد گالیوں كی نئی لغت ماركیٹ میں متعارف ہوئی۔ مریم نواز خاص طور پر اس كا نشانہ بنیں اور ابھی تک بن رہی ہیں۔ جولائی 2017 میں نواز شریف كو سپریم كورٹ نے عہدے سے الگ كر دیا۔ 2017 میں ہی سابق خاتون اول كلثوم نواز كی بیماری كی اطلاع آئی اور مسلم لیگ ن نے نواز شریف كی نااہلی سے خالی ہونیوالی نشست پر كلثوم نواز كو میدان میں اتارنے كا فیصلہ كیا۔ علالت كی وجہ سے كلثوم نواز كی انتخابی مہم ان كی بیٹی مریم نواز نے چلائی اور دونوں ماں بیٹی مخالفین كی گالیوں كا نشانہ بھی بنیں لیكن جیت كلثوم نواز كی ہوئی۔ مرحومہ اپنی بیماری كے باعث وطن واپس نہ آ سكیں اور حلف بھی نہ اٹھا سكیں۔ ان كے سیاسی مخالفین نے ان كی علالت كو ڈرامہ اور 2018 میں ہونیوالے عام انتخابات میں عوام كی ہمدری جیتنے كیلیے سیاسی حربہ كہا۔
اس دوران احتساب عدالت كا فیصلہ آیا۔ نواز شریف ان كی صاحبزادی مریم نواز اور داماد كپیٹن (ر) صفدر كو سزا ہو گئی۔ نواز شریف كو بزدلی كے طعنے ملے اور ان كے بڑے سیاسی قد كاٹھ كے مالک سمجھےجانیوالے بہت سے سیاسی حریف بھی چھوٹے انسان ثابت ہوئے۔ انہوں نے جلسوں اور ٹی وی سكرینوں پر اس بیماری كا مذاق اڑایا۔ نواز شریف بستر مرگ پر اپنی شریک حیات اور قابل اعتماد ساتھی كو چھوڑ كر اپنی بیٹی كے ہمراہ قانون كا سامنا كرنے وطن پہنچے اور وطن پہنچتے ہی گرفتار ہوئے۔ جولائی 2018 كے انتخابات میں ان كی جماعت كو شكست ہوئی اور تبدیلی كا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعت پاكستان تحریک انصاف بر سراقتدار آئی اور "نیا پاكستان" بن گیا جس كے بعد ہر سیاسی مخالف معہ اہل وعیال (زندہ یا مردہ كی كوئی قید نہیں) كرپٹ، غدار، كافر اور دیگر غلیظ القابات سے نواز جارہا تھا اور جا رہا ہے۔
مستقبل قریب میں یہ سلسلہ تھمتا نظر نہیں آتا كیونكہ نئے پاكستان كے بانی اور دیگر معماروں كا نظریہ ہے كہ ہر سیاسی مخالف كو گالی دینا ٹائیگرز پر فرض ہے اور اگر وہ ایسا نہیں كرتے تو انہیں ٹائیگر نہیں كہا جا سكتا۔ خیر بات دور نكل گئی۔ 11 ستمبر 2018 كو كلثوم نواز كے انتقال كی خبر آئی اور ان كے مخالفین نے پھر كہیں جا كر یقین كیا كہ وہ واقعی بیمار تھیں۔ ہر مخالف سیاسی جماعت كا سربراہ جنازے میں نہیں تو دعائے مغفرت كرنے گیا۔ نہیں آئے تو ٹائیگرز كے دل كی دھڑكن عمران خان صاحب تشریف نہیں لائے۔ ان سے ایک درخواست ہے كہ اگر فرصت ملے تو افسوس كرنے ضرور جائیے گا۔ باقی كلثوم نواز مرحومہ كی بیماری نے یہ ثابت كر دیا ہے كہ ہم ایسے بے حس معاشرے كے فرد بن گئے ہیں جس میں اداسی كا یقین دلانے كے لئے آنسو بہانا پڑتے ہیں اور بیماری كا یقین دلانے كے لئے مر كے دكھانا پڑتا ہے۔
سیاسی اختلافات سیاست تک محدود ركھیں اور "ماواں سب دیاں سانجھیاں ہوندیاں" كے اصول پر كاربند رہیے اور اختلاف دلیل سے كریں تذلیل سے نہیں۔