ان دنوں عسکری احکامات معیشت پر حاوی ہیں۔ نگران سطح سے لے کر صحافیوں تک سبھی اسی کی تعریف میں لگے ہیں۔ ان احکامات میں بلوچستان میں بلوچ کی روزی روٹی کا ایک ہی ذریعہ سرحدی کاروبار یعنی سمگلنگ کی بندش بھی شامل ہے۔ اب مجھے یاد نہیں کہ کب سے سمگلنگ کے دھندے کا ذمہ دار صرف بلوچ کو قرار دیا جا رہا ہے تاہم یہ یاد ہے کہ کب سے بلوچ اسی کاروبار میں جان و مال گنوا رہا ہے۔
شہباز شریف اقتدار میں آئے تو نوشکی میں بلوچ مزدوروں کی گاڑیوں کے ریڈی ایٹر میں ریت ڈالی گئی۔ 4 بلوچ نوشکی کے تپتے صحرا میں بھوک پیاس کے مارے جاں بحق ہوئے۔ اس پر کمیٹی بنی مگر کچھ نہیں ہوا۔ رواں سال اور گذشتہ سال سیلاب نے کہساروں کے بے ہنگم راستوں میں کھڑی گاڑیوں کو لپیٹ میں لے لیا، کئی بلوچ مزدور شہید ہوئے۔ گاڑیاں بہہ گئیں، کہیں سے بھی جان گنوانے والے پر افسوس کیا گیا اور نا ہی گاڑیوں کے حساب کتاب کا کوئی ذکر ہوا۔
سرحدوں پر نا جانے رشوت کے کتنے کیسز منظر عام پر آتے رہے ہیں اور کتنے بلوچ شہید ہوتے رہے ہیں مگر کسی کو کوئی خبر نہیں پہنچی۔ البتہ جب بات اہلِ اقتدار و ملکی معیشت پر آئی تو سرحدی کاروبار کو سرکاری مشینری سے روکنے میں ڈیڑھ منٹ بھی نہیں لگے۔ اب بلوچ اس کسمپرسی میں ہے کہ اس کا رزق مار کر انہیں اس کے متبادل کیا ملے گا۔ بلوچ سرمایہ دار ہے اور نا ہی جاگیردار۔ بلوچ سیاسی اثر و رسوخ بھی نہیں رکھتا کہ کہیں کوئی راستہ تلاش کرے۔
بلوچ کے حصے میں فیکٹری اور کمپنی آئی ہی نہیں تاہم جب بلوچ کی نظر اپنی زمین پر کسی دوسرے ملک کے ساتھ لگنے والے بارڈر پر پڑی تو غربت کا ستایا مزدور سنگلاخ پہاڑوں کو چیرتا ہوا راستے اور روزی کی تلاش میں نکل پڑا۔ بلوچ کے لیے سمگلنگ اگر راستہ نہیں تو نان سمگلنگ بھی کوئی آپشن نہیں۔ بلوچ کا ہر روزگار ریاستی سطح پر سمگلنگ ہی ہے۔
چار بلوچ مصنوعی طاقت کے حامل جاگیرداروں کے کھیتوں میں کام بھی کرتے ہوں تو نجی جیل کی سیر ممکنات میں ہوتی ہے البتہ نجی جیلوں کے مالک بالکل آزاد ہیں۔ بالغ و ذمہ دار شہری اور محبِ وطن ہیں۔ ان کا سمگلنگ سے کوئی سروکار ہے ہی نہیں۔
یہاں ممکن ہے سمگلنگ کی تعریف الگ ہو گی لیکن سرحدی مزدور ضلعی انتظامیہ و ریاستی اجازت نامہ بنام ٹوکن سے ہی مہینہ میں ایک بار اپنے منی ٹرک سے سرحد کے اس پار دھکے کھاتے جاتے ہیں۔ سرحد کے دونوں اطراف چاک چوبند دستہ موجود ہوتا ہے۔ کہیں سے بھی کوئی روک ٹوک نہیں آتی لیکن میڈیا پر جب بات آئی ہے تو اسے سمگلنگ ہی کہا جا رہا ہے۔
اگر یہ سمگلنگ ہے تو اس سمگلنگ میں ریاست بھی شامل ہے کیونکہ سب کچھ اسی کی منشا سے ہوتا رہا ہے۔ جن راستوں پر بلوچ مزدور سفر کرتے ہیں انہیں دو ممالک بارڈر پوائنٹ کا نام دیتے ہیں۔ چلیں اگر بلوچ کو سمگلر کہنا ہے تو پھر اس دھندے میں ملوث سبھی کو سمگلر کہہ کر پکارنے کی ہمت کر لیا کریں۔
بلوچ جانتا ہے کہ اس کے پاس محددو آپشنز موجود ہیں۔ لیکن سمگلر وغیرہ وغیرہ کے القابات کے باجود بلوچ اسی آپشن پر چلتا رہا ہے اور شاملِ کاروبار ریاست سمیت سبھی ذمہ داران سمگلر کے ٹائٹل سے بدستور آزاد ہیں۔
سرحدی کاروبار ہزاروں کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس کھیل میں ضلع سے صوبہ و بڑے دفاتر کے مالک سب منافع خور رہے ہیں جس کا اعلان بڑے بڑوں نے کر رکھا ہے۔
بلوچ چونکہ کرہ ارض پر موجود ایسی مخلوق ہے جس کو باآسانی قتل کیا جا سکتا ہے، جبری لاپتہ کیا جا سکتا ہے، اس کی چادر و چار دیواری پامال کی جا سکتی ہے تو اس کے کاروبار پر قدغن لگانا بھی حسبِ توقع اقدام ہی ہے۔