'پی ٹی آئی کے شدید دباؤ کے باعث صدر علوی الیکشن کی تاریخ ضرور دیں گے'

الیکشن قوانین میں تبدیلی کے بعد الیکشن کمیشن صدر مملکت کی ایڈوائس کا پابند نہیں ہے لیکن اس کے باوجود صدر علوی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ضرور کریں گے۔

'پی ٹی آئی کے شدید دباؤ کے باعث صدر علوی الیکشن کی تاریخ ضرور دیں گے'

صدر مملکت عارف علوی کسی بھی وقت عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیں گے جس کے بعد ملک میں جاری آئینی بحران شدت اختیار کر جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کردار ادا کرنے کے دباؤ پر صدر نومبر کے آغاز کی کسی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ نئے آنے والے چیف جسٹس کو وہ 'الیکشن کا مسئلہ' تحفے میں دیں۔ یہ دعویٰ کیا ہے سینیئر صحافی جاوید چودھری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں جاوید چودھری نے کہا کہ صدر عارف علوی کی جانب سے دی جانے والی انتخابات کی تاریخ ممکنہ طور پر 5 نومبر سے 12 نومبر کے درمیان کی ہو گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی 12 نومبر کی تاریخ دیں گے تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے ایک ہفتہ قبل کی تاریخ دے دیں۔ اس حساب سے ایوان صدر سے 5 نومبر سے 12 نومبر کے بیچ کی کسی تاریخ پر الیکشن کا انعقاد کروانے کے لیے خط جاری کیا جائے گا۔

صدر عارف علوی کی جانب سے 9 ستمبر سے پہلے انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے گریز کیا گیا کیونکہ ان پر بہت دباؤ تھا اور وہ گھبرائے ہوئے تھے۔ انہیں آئینی مدت ختم ہونے کے بعد نئے صدر کے انتخاب تک کی توسیع دے دی گئی ہے۔ یہ اعلان وہ 9 ستمبر سے پہلے بھی کر سکتے تھے تاہم ایسی صورت میں خدشہ تھا کہ انہیں ایوان صدر سے رخصت ہونا پڑتا۔ ان کی پنشن، مراعات، پروٹوکول مکمل طور پر ختم ہو جاتا۔ انہیں اور ان کی فیملی کو ملا ہوا 'ہیڈ پاسپورٹ' بھی ریاست کو واپس کرنا پڑتا۔ اب چونکہ وہ آئینی مدت پوری کر چکے ہیں تو اب ان کی پنشن کو نقصان نہیں ہو گا، تنخواہیں جاری رہیں گی، مراعات یا پروٹوکول کے واپس لیے جانے کا خطرہ نہیں ہے تو پی ٹی آئی کے کہنے پر اب وہ اس دلدل میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔

گذشتہ روز تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل عمر ایوب نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے نام خط لکھا تھا۔ خط میں پی ٹی آئی رہنما نے لکھا کہ آئین کا آرٹیکل 48 (5) قومی اسمبلی توڑنے کی صورت میں صدر کو انتخابات کے انعقاد کے لیے 90 روز میں تاریخ کے تعین کا پابند بناتا ہے۔

پی ٹی آئی کے اس مطالبے کے بعد صدر عارف علوی پھر سے متحرک ہو گئے ہیں اور انہوں نے مشاورت کے لیے 2 مرتبہ نگران وزیر قانون و انصاف احمد عرفان اسلم سے ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں کے بعد یہ خبر سامنے آئی ہے کہ صدر عارف علوی کسی بھی وقت الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں۔

اس سے قبل صدر مملکت کی جانب سے ایک ٹویٹ کی گئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلوں پر انہوں نے دستخط نہیں کیے بلکہ انہوں نے اپنے عملے کو یہ دونوں بل پارلیمنٹ کو واپس بھجوانے کی ہدایت کی تھی۔ صدر عارف علوی کی ٹویٹ کے بعد حکومت پاکستان کو ملکی اور عالمی سطح پر خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس ٹویٹ سے قبل صدر کو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ان کے ایک قریبی دوست سلمان آفتاب نے کھانے پر مدعو کیا اور انہیں کہا کہ پارٹی میں آپ پر بہت شدید تنقید کی جا رہی ہے، عمران خان چاہتے ہیں کہ آپ اپنا کردار ادا کریں۔ انہیں یہ بھی کہا گیا کہ اگر آپ نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو پارٹی آپ کی جان چھوڑے گی اور نا ہی تاریخ۔ جب صدر مملکت اس ملاقات کے بعد ایوان صدر واپس گئے تو ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور ان کی پوری رات پریشانی اور بے آرامی کی نذر ہو گئی۔ صبح اٹھ کر انہوں نے یہ ٹویٹ کر دی جس کے بعد ملک میں ایک بحران کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔

بعد ازاں صدر مملکت سے ملاقات کے لیے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم احم انجم ایوان صدر پہنچے۔ اس ملاقات میں یہ طے پایا کہ صدر صاحب اب ایسی کوئی شرارت نہیں کریں گے جس سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچے۔ لیکن اب خط کے ذریعے پی ٹی آئی ایک مرتبہ پھر صدر علوی پر پریشر ڈال رہی ہے کہ صدر اپنا کردار ادا کریں۔

جاوید چودھری کے مطابق صدر مملکت کے اس خط کے باوجود الیکشن نہیں ہو سکتے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر کے نوٹی فکیشن کو مسترد کر دے گا اور مؤقف اختیار کرے گا کہ چونکہ آئینی ترمیم کے مطابق الیکشن کی تاریخ کا اختیار اب الیکشن کمیشن کے پاس ہے، اس لیے انتخابات کی تاریخ کا اعلان صدر مملکت نہیں کر سکتے۔ پھر یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر صدر مملکت کی بات مان بھی لی جائے تو الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے 54 دن درکار ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اتنا وقت نہیں بچا تو صدر عارف علوی کا پروپوزل ماننے کی صورت میں بھی الیکشن کمیشن پاکستان میں صدر عارف علوی کی دی گئی تاریخ پر انتخابات نہیں کروا سکتا۔ الیکشن قوانین میں تبدیلی کے بعد الیکشن کمیشن صدر مملکت کی ایڈوائس کا پابند نہیں ہے لیکن اس کے باوجود صدر علوی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ضرور کریں گے۔

صحافی کا کہنا تھا کہ تاریخ کا اعلان کرنے کی وجہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ہیں۔ چونکہ قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کا حلف اٹھانے والے ہیں اور ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہیں تو جب یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں جائے گا تو ان کی پوزیشن کمپرومائز ہو گی۔ اگر وہ آئین کے مطابق چلیں گے تو ریاست کو شرمندگی اٹھانا پڑے گی کیونکہ بروقت انتخابات کروانے کے لئے ریاست کی تیاری ہے اور نا ہی اتنا وقت بچا ہے۔ اگر دوسری صورت میں آنے والے چیف جسٹس یہ کہتے ہیں کہ فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے تو وہاں قاضی فائز عیسیٰ کی عزت پر حرف آئے گا اور پی ٹی آئی کو ان کی ٹرولنگ کا موقع مل جائے گا۔

نئے چیف جسٹس کو صدر پاکستان کی جانب سے 'الیکشن کا مسئلہ' تحفے کے طور پر دیا جا رہا ہے کہ آپ آ تو گئے ہیں لیکن آپ کے شب و روز کانٹوں کی سیج پر گزریں گے۔ اس تحفے کا نقصان سپریم کورٹ اور ریاست پاکستان دونوں کو ہو گا۔