بچپن سے ایک مثال سنتے آئے ہیں کہ 'اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی' اور یہ مثال ہماری نیب پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ سیاسی انجینئرنگ کیلئے قائم کئے گئے اس ادارے سے آج تک نہ کوئی حکومت خوش رہی ہے، نہ حزبِ اختلاف، نہ کاروباری حضرات اور نہ ہی میڈیا حتیٰ کہ عدالتیں بھی اس ادارے سے نالاں دکھائی دیتی ہیں۔
اگر عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھی جائے گی تو پوری عمارت ٹیڑھی ہی نظر آئے گی۔ اس ادارے کی بنیاد ہی کیونکہ بدنیتی پر رکھی گئی تھی لہذا اس کیلئے بنائے گئے قوانین اور ضوابط میں بھی وہ خرابی نظر آتی ہے، خاص کر اس ادارے کا چیئرمین شاید آرمی چیف کے بعد سب سے زیادہ طاقتور شخص ہوتا ہے جو جس کو چاہے، جب چاہے گرفتار کر سکتا ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہے۔
مشرف کے دور میں ہوئے انتخابات میں 'جھرلو' پھیرنے کے باوجود جب حکومت نہ بن پائی تو حکومت بنانے میں اس ادارے نے بہت اہم کردار ادا کیا اور ایک ووٹ کی اکثریت سے جمالی صاحب کی حکوت قائم ہو گئی۔ اس کے بعد 'ناپسندیدہ' اراکین اسمبلی کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر کے حکومت کو مستحکم کیا گیا۔ ان انتخابات میں ایک لطیفہ یہ بھی ہوا کہ رات گئے حتمی نتیجہ کے مطابق لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اکرم ذکی کامیاب قرار دیے گئے لیکن صبح اٹھنے پر معلوم ہوا کہ مسلم لیگ (ق) کے امیدوار ہمایوں اختر چند ووٹوں کے اکثریت سے جیت گئے ہیں۔
نیب کے عیب وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے اور اس حکومت کے دور میں تو یوں لگتا ہے کہ اس ادارے کے اصل سربراہ عمران نیازی ہیں جبکہ جاوید اقبال صرف نام کے چیئرمین ہیں، جس طرح وزیراعظم تو عمران نیازی ہیں لیکن حکومت کسی اور کی ہے۔
اس دور میں اس ادارے نے جو اندھی مچائی اس پر نہ صرف ہماری عدالتوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا بلکہ ایک عالمی ادارے نے بھی نیب کو سیاسی انتقام کا ادارہ قرار دیا ہے۔ اس ادارے کے چیئرمین کی 'سر سے پاؤں' تک کی ویڈیو ایک نجی چینل پر نشر کروا کر حکومت نے انہیں 'کانا' بنا دیا، اب موصوف وہی کرتے ہیں جس کا انہیں وزیراعظم صاحب حکم دیتے ہیں۔ 20 برس میں نیب ایک بھی مقدمہ ایسا نہیں بنا سکا جسے وہ عدالت میں ثابت بھی کر سکے۔ اس ادارے کا سارا دارومدار صرف پلی بارگین پر ہوتا ہے اور اس میں سے کتنا قومی خزانے میں جاتا ہے اور کتنا ان کی جیبوں میں اس کا آج تک کوئی حساب نہیں ہوا۔
11 اگست کو نیب نے مریم نواز کو زمین کی خریداری میں بدعنوانی کے شبہ میں بلایا تھا لیکن کارکنوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر گھبرا کر سماعت منسوخ کرنا پڑی۔ مریم نواز کا کیس بھی ایسا ہی ہے جیسا جنگ اور جیو گروپ کے میر شکیل الرحمٰن صاحب کا ہے۔
ملک کے نامور ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ یہ دونوں کیس نیب کے دائرہ اختیار میں آتے ہی نہیں کیونکہ یہ ایک پارٹی کا دوسری پارٹی سے معاملہ ہے اور جب تک دونوں پارٹیوں میں سے کوئی ایک فریق نیب کو شکایت نہ کرے، نیب کا اس سے کوئی واسطہ نہیں لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے کہ چیئرمین نیب کے لامحدود اختیارات ہیں اور وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔