پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے روایتی مؤقف سے ہٹ کر کہ وہ اس وقت اقتدار میں موجود 'بدمعاشوں اور لٹیروں' سے کبھی مذاکرات نہیں کریں گے، تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں، یہاں تک کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) سے بھی بات چیت ہوسکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق انہوں نے کہا کہ 'ہم نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد پی ڈی ایم سے ہر چیز پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ڈی ایم کی قیادت 'الجھن' میں ہے کیونکہ وہ اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے فوری انتخاب نہیں چاہتے۔
ان قیاس آرائیوں کے درمیان کہ انہیں توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ کیس کی روشنی میں انہیں آرٹیکل 62(1)(ایف) کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا جا سکتا ہے سابق وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کوئی معاہدہ نہیں کریں گے۔
انہوں نے یہ ریمارکس زوم پر ’آزادی ڈائمنڈ جوبلی اسپیشل‘ سیشن کے دوران دیے، جس میں صحافیوں اور مشہور شخصیات نے شرکت کی۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ انہیں 'تکنیکی طور پر ناک آؤٹ' کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں اور توشہ خانہ کیس اور ممنوعہ فنڈنگ انہیں سیاسی منظر سے ہٹانے کے لیے 'پلان سی' کا حصہ تھے۔
عمران خان کے مطابق ان مقدمات کو عدالتوں میں خارج کر دیا جائے گا کیونکہ ان میں 'کچھ بھی اہم' نہیں ہے، تاہم خطرے کی تلوار ان کے سر پر لٹک رہی ہے۔
عمران خان نے زوم سیشن کے شرکا کو بتایا وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس پروپیگنڈے کے بعد جس کے نتیجے میں ( عمران خان کی سیاست پر) پابندی لگ سکتی ہے، یہ ڈیل کریں گے کہ اگر عمران خان پر سے پابندی ہٹانی ہے تو نواز شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے کیسز اور نواز شریف کے کیسز ایک جیسے نہیں ہیں تاہم ڈیل کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ نے افواہوں پر مبنی ڈیل کو شریف کے لیے 'این آر او ٹو' قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'میں نے کوئی ڈیل نہیں کی ہے اور نہ ہی میں کروں گا، مجھے سائیڈ لائن کرنے کی 'سازش' بالآخر ملک کو نقصان پہنچائے گی۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں ایک اور توسیع کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ آرمی چیف سمیت فوج میں تقرریاں میرٹ پر ہونی چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمیں فوج میں میرٹ کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ بہترین افسران رینک کے ذریعے اوپر آسکیں'۔
پی ٹی آئی کے سربراہ نے اے آر وائی نیوز پر پابندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی چینل پر پابندی ان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کے تبصروں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے لگائی گئی کہ یہ ان کی حمایت کرنے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے چیف آف اسٹاف شہباز گل کے بغاوت پر مبنی بیان سے بھی لاتعلقی اختیار کر لی، انہوں نے اعتراف کیا کہ ٹی وی شو کے دوران شہباز گل کا ایک جملہ 'بالکل قابل اعتراض' تھا۔ شہباز گِل کو ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا۔ لیکن پی ٹی آئی رہنما کے ریمارکس پر نیوز آؤٹ لیٹ پر پابندی لگانے کا اس وقت بھی جواز نہیں بنتا۔
خیبر پختونخوا کے علاقے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دوبارہ سر اٹھانے کے بارے میں عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ صوبے میں ان کی پارٹی کی حکومت کو 'غیر مستحکم' کرنے کے منصوبے کی طرح لگتا ہے، تاہم انہوں نے اس اقدام کے نتائج کے بارے میں خبردار کیا۔