یہ کہانی خیبر پختون خوا کے بیس سالہ سعد کی ہے جو ہر جمعے کی رات کو اسلام آباد کے مقامی مدرسے کے ایک چھوٹے سے ہال میں دیگر دوستوں کے ساتھ سیاسی سرکل کا اہتمام کرتے ہیں، اور ملک کی سیاسی صورتحال پر گرما گرم بحث کرتے ہیں۔
نیا دور کے نمائندے نے ایک ایسی ہی سیاسی محفل میں شامل نوجوانوں کی سیاسی صورتحال پر رائے جاننے کی کوشش کی مگر اس بحث میں سعد نمایاں نظر آئے کیونکہ وہ اور ان کے کچھ دوست جمیعت علمائے اسلام (ف) کی سیاست سے اختلاف کرتے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کو پسند کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو یہودی ایجنٹ کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔
سعد کی عمر بیس سال ہے اور وہ اسلام آباد کے ایک مقامی مدرسے میں ساتویں درجے کے طالب علم ہے۔ وہ سیاست میں گہری دلچسپی لیتے ہیں اور مستقبل میں صحافی بننا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ مولانا فضل الرحمان کے حال ہی میں سجائے گئے دھرنے میں جاتے تو تھے مگر مولانا فضل الرحمان کی سیاست کے ناقد ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کو نا صرف تنقید کا سامنا ہے بلکہ دوستوں کی محفل میں ان کو گمراہ اور یہودی ایجنٹ کا طعنہ دیا جاتا ہے۔
سعد کے مطابق تنقید کی وجہ سےان کو نفسیاتی دباؤ کا سامنا رہتا ہے اور وہ خود کو مدرسے میں غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
سعد نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں مدرسے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنی مرضی سے آیا مگر اب آہستہ آہستہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہا ہوں کیونکہ مدرسے کی بے جا سختی نے میرے دماغ پر برے اثرات مرتب کیے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ یہ ایک سال گزر جائے اور کورس ختم ہونے کے بعد وہ ایک آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔
سعد کا کہنا تھا کہ مدرسے میں پڑھنے والے دو ہزار طالب علموں کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ آپ مولانا فضل الرحمان کو ملک اور اسلام کا مسیحا سمجھو اور باقی تمام سیاسی پارٹیز کو پسند کرنے سے گریز کرو۔ سعد نے کہا کہ مدرسے میں اس وقت دو ہزار طالب علم زیر تعلیم ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سب طالب علم مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام کو پسند کریں کیونکہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔
سعد کا کہنا تھا کہ مولانا صاحب جمہوریت کی بات کرتے تو ہے مگر ان کے کارکنوں اور مدرسوں میں جمہوریت نہیں کیونکہ ہمارے بہت سارے دوست مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کو پسند کرتے ہیں مگر وہ کھل کر اظہار نہیں کرتے کیونکہ پھر ان پر مختلف لوگوں کی طرف سے نہ صرف تنقید کا سامنا ہوتا ہے بلکہ ان پر کفر کے فتوے بھی لگتے ہیں۔
سعد کا کہنا تھا کہ نہ صرف دوست تنقید کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اگر اساتذہ کو پتہ لگ جائے تو وہ نہ صرف گھنٹہ گھنٹہ لیکچرز دیتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپ کو ڈانٹتے بھی ہیں اور پھر آپ کو نظر انداز کرتے ہیں تاکہ آپ اپنی سیاسی سوچ کو بدل لیں۔
طالبعلم سعد نے بتایا کہ”میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے، جو مولانا فضل الرحمان کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے، جب گھر جاتا ہو تو وہاں پر بھی مجھے تنقید کا سامنا رہتا ہے جب مدرسے آتا ہوں تو یہاں پر بھی یہی صورتحال ہے۔ دونوں جگہوں پر یہی کہا جاتا ہے کہ میں گمراہ ہوں اور اسلام کے راستے سے دور ہو چکا ہوں۔“سعد نے نیا دور سے گفتگو میں بتایا کہ میں ان کو جواب دیتا ہو کہ دیکھو میں مدرسے میں پڑھتا ہوں، پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرتا ہو اور قران کریم کی تلاوت کرتا ہوں، میں کیسے گمراہ اور یہودی ایجنٹ ہو سکتا ہوں۔ تو جواب یہی ملتا ہے کہ یہ تو منافقین بھی کرتے ہیں، جس پر میں ایک نفسیاتی کرب میں مبتلا ہو جاتا ہوں اور یہی سوچتا ہوں کہ کیا میں واقعی گمراہ ہوچکا ہوں؟
سعد جب نماز عصر کے بعد نماز مغرب تک چھٹی ہونے کے بعد باہر جاتے ہیں تو اپنے موبائل پر مختلف ٹی وی ٹاک شوز دیکھتے ہیں اور سوشل میٖڈیا پر دوسرے نام سے ایک اکاونٹ بھی بنایا ہے جہاں وہ کھل کر اپنے سیاسی خیالات کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ سعد کے مطابق اگر میں اپنے ذاتی اکاونٹ سے کچھ لکھوں تو اساتذہ کو پتہ لگ جائے گا اور پھر وہ مجھ پر غصہ کرینگے۔
سعد کا مزید کہنا ہے کہ مدرسے کے اندر کے ماحول کو بدلنا ہو گا کیونکہ اس ماحول کی وجہ سے نوجوان طالب علموں میں برداشت ختم ہو رہی ہے اور وہ باہر جا کر بحث کرنے کے دوران نہ صرف دوسروں پر تنقید کرتے ہیں بلکہ اگر کوئی ان کی رائے سے اتفاق نہ کرے تو کفر کے فتوے بھی لگاتے ہیں۔
اگر مدرسے کے اندر بے جا سختی کو ختم نہیں کیا گیا تو ان کے اثرات پہلے بھی خطرناک تھے اور تاہم وہ مزید خطرناک ہوسکتے ہیں۔سعد کا کہنا تھا کہ مدرسے سے لاکھوں طالب علم فارغ ہوتے ہیں ان کی ایسی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ باہر جا کر صرف مساجد میں امامت کے فرائض سرانجام نہ دیں بلکہ دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ عملی سیاست میں بھی حصہ لیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی تحریک انصاف یا مسلم لیگ ن کو پسند کرتا ہے یا مولانا فضل الرحمان کی سیاست سے اختلاف کرتا ہے تو ان پر کفر کے فتوے نہ لگاؤ بلکہ اختلاف رائے کو برداشت کرو اور دوسروں کی سیاسی سوچ کو قبول کرو۔