پاکستان کی موجودہ سیاست میں جو کھیل بڑے جوش و خروش سے کھیلا جا رہا ہے وہ ہے تحریک عدم اعتماد کا کھیل. آخر یہ تحریک عدم اعتماد ہے کیا؟ اس کا اصل کھلاڑی کون ہوتا ہے اور یہ کھیل کیسے کھیلا جاتا ہے؟ اس کے لیے آئینی تقاضے کیا ہیں اور ان اصطلاحات کا مطلب کیا ہے جو اس سلسلے میں استعمال کی جاتی ہیں۔
تحریک عدم اعتماد سے مراد وہ ووٹ یا وہ بیان ہے جو کسی سرکاری یا تنظیمی عہدیدار کے خلاف دیا جاتا ہے کہ یہ عہدیدار مزید اس عہدے کو سنبھالنے کے لائق نہیں ہے۔ عدم اعتماد کا استعمال اکثر اس وقت ہوتا ہے جب کوئی سرکاری یا تنظیمی عہدیدار کوئی ایسا قدم اٹھائے جو آئین، قانون اور ضابطہ اخلاق کے خلاف ہو۔
سرکاری طور پر اکثر تحریک عدم اعتماد یا عدم اعتماد بل اس وقت پارلیمان میں لایا جاتا ہے جب کوئی حکومتی عہدیدار کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے جو آئین و قانون کیخلاف ہو یا ایسا اقدام جس سے ملک کی بدنامی اور نقصان ہو۔ پارلیمان میں اکثر عدم اعتماد کا بل حزب اختلاف کے جانب سے پیش کیا جاتا ہے جس پر ارکانِ پارلیمان اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ اگر کسی وفاقی عہدیدار (جیسے وزیر اعظم،وفاقی وزیر،وغیرہ) کو برطرف کرنا ہوتا ہے تو وفاقی قانون ساز ایوانوں (مثلا قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں یہ بل پیش کیا جاتا ہے اور اگر صوبائی سطح پر کسی عہدیدار (جیسے وزیراعلیٰ،صوبائی وزیر،وغیرہ) کو ہٹانا ہے تو صوبائی قانون ساز ایوانوں میں (جیسے صوبائی اسمبلی) میں بل پیش کیا جاتا ہے۔
جب بات تحریک عدم اعتماد کی ہوتی ہے تو چند باتیں یا اصطلاحات بڑے تواتر سے استعمال ہوتی ہیں، جیساکہ نمبر گیم، فلور کراسنگ، اوپن بیلٹ اور سیکرٹ بیلٹ، اور آئینی تقاضے وغیرہ۔
پارلیمانی جمہوریتوں میں جہاں پارٹی کی بنیاد پر انتخابات ہوتے ہیں۔ جو پارٹی ایوان زیریں میں جسے پاکستان میں قومی اسمبلی کہا جاتا ہے، ارکان کی اکثریت حاصل کرلے، وہ اپنا پارلیمانی لیڈر منتخب کرتی ہے۔ جو وزیر اعظم کہلاتا یا کہلاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ پارٹی یا پارٹیاں جن کے ارکان کی مجموعی تعداد کم ہوتی ہے، حزب اختلاف کہلاتی ہیں۔ وہ بھی اپنا ایک پارلیمانی لیڈر منتخب کرتی ہیں جو قائد حزب اختلاف کہلاتا یا کہلاتی ہے۔
اگر حزب اختلاف حکومت کی کار کردگی سے مطمئن نہ ہو اور حکومت گرانا چاہے تو اس کا آئینی طریقہ یہ ہے کہ وہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے۔ ان دنوں پاکستان میں یہی ہو رہا ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیاں متحد ہوکر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کرانےکی کوشش کررہی ہیں جس کے لیے آئین میں باقاعدہ ایک طریقہ کار درج ہے۔ جس کے مطابق وزیر اعظم کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے قومی اسمبلی اور وزیر اعلیٰ کیلئے صوبائی اسمبلی کے ارکان کی مجموعی تعداد کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اور یہاں پر نمبرز گیم کی اصطلاح سامنے آ تی ہے۔ یعنی فریقین یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود ہے۔
اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ان ادوار کو چھوڑ کر جب ملک میں فوجی آمریتیں رہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کے ادوار میں اب تک کسی سربراہ حکومت کو اس آئینی طریقے کے ذریعے اقتدار سے محروم نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض وزرا اعظم کو دوسرے طریقوں سے اقتدار سے محروم کیا گیا۔ اب تک پاکستان کے صرف تین وزرا اعظم کو عدم اعتماد کی تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں سے دو نے اپنے خلاف اس تحریک کو ناکام بنایا تھا۔
یکم نومبر1989 کو اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔ جو 12 ووٹوں کی اکثریت سے ناکام ہو گئی۔ اسی طرح 2006 میں مشرف دور کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد بھی ناکام ہو گئی تھی۔ جبکہ 9 اپریل 2022 کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ اور ابھی حالیہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے خلاف لائی گئی تحریک کو بھی ناکام بنادیا گیا۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کھیل سے ہماری سیاست اور ہمارے ملک کو کیا فوائد حاصل ہورہے ہیں؟ ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ ملک ڈیفالٹ ہونے کو ہے۔ اسمبلیاں تحلیل کرکے اپنی سیاسی طاقت دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے یا پھر عوامی رائے کو بروئے کار لاتے ہوتے نیا نظام لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عوام کو ریلیف کب اور کیسے ملے گا؟ اور کب تک ہم دوسرے ممالک کے سامنے کشکول لے کر گھومتے رہیں گے؟
مصنفہ سینیئر صحافی ہیں اور ملک کے متعدد ٹی وی چینلز پر کام کر چکی ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان کے مختلف ویب سائٹس پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔