عام انتخابات اور گوادر میں تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کا مستقبل

عام انتخابات 2018 میں گوادر میں اصل مقابلہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور بلوچستان عوامی پارٹی کے درمیان تھا مگر اس مرتبہ مولانا ہدایت الرحمٰن کی سربراہی میں گوادر سے ابھرنے والی 'حق دو تحریک' ایک بڑی قوت بن کر ابھری ہے۔ 2024 کے الیکشن میں قوم پرست جماعتوں کا مقابلہ حق دو تحریک سے ہو گا۔

عام انتخابات اور گوادر میں تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کا مستقبل

جماعتی بلوچ گوادر سے تعلق رکھنے والی ایک سماجی کارکن ہیں اور علاقے میں تعلیمی مسائل کو اجاگر کرتی آ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ضلع گوادر میں تعلیمی صورت حال ابتر ہے اور استاتذہ نہ ہونے کی وجہ سے دیہی علاقوں کے سکول بند ہیں۔ ان کے خیال میں انتخابی امیدواروں کو اس مرتبہ عوام کی جانب سے انتخابی مہم چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس جدید دور میں بھی یہاں کے عوام تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

گوادر سے تعلق رکھنے والی مہر بلوچ پرامید ہیں کہ اس مرتبہ عورتیں الیکشن ڈے پہ بڑی تعداد میں نکل کر پولنگ سٹیشنز کا رخ کریں گی اور تبدیلی کے لیے ووٹ ڈالیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ گوادر کی خواتین سیاست میں دیگر علاقوں کی خواتین سے زیادہ فعال ہیں اور اسی وجہ سے وہ الیکشن مہم میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔

بی ایس او کے سابق چیئرمین گہرام اسلم بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں اگر اس مرتبہ سیاسی لوگوں کو باہر کرنے کے لئے اور اپنے من پسند امیدواروں کو اسمبلی میں لانے کے لئے ٹھپہ ماری کی گئی تو نوجوان پارلیمانی سیاست سے بیزار ہو جائیں گے۔ ان کے مطابق بلوچستان میں الیکشن کے حوالے سے نوجوانوں میں ایک بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے کیونکہ ماضی میں بلوچستان کے انتخابی ریکارڈ اچھے نہیں رہے۔

گوادر سے تعلق رکھنے والی سیاسی کارکن صدف گل نے کہا کہ گوادر میں خواتین الیکشن میں اس لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں کیونکہ وہ انتخابی امیدواروں سے امیدیں وابستہ رکھتی ہیں کہ ان کے بنیادی مسائل سمیت ان کے لئے قانون سازی کی جائے گی مگر المیہ یہ ہے کہ انتخابی امیدوار ہر الیکشن میں صرف وعدے کرتے ہیں جنہیں بعد میں وفا نہیں کرتے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو لوگ سیاسی جماعتوں سے بے زار ہو جائیں گے۔ وہ کہتی ہیں شہری علاقوں میں خواتین بڑی تعداد میں ووٹ دینے پولنگ سٹیشنز کا رخ کرتی ہیں اور صدف گل کے خیال میں اس بار بھی گوادر کہ خواتین بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گی۔ ان کے خیال میں گوادر میں نوجوان بڑی تعداد میں بے روزگار ہیں اور وہ اسی امید پر ووٹ دیتے آ رہے ہیں کہ انتخابی امیدوار جیتنے کے بعد ان کے لئے پالیسی بنا کر انہیں روزگار کے مواقع فراہم کریں گے مگر ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے یہ صرف ایک امید رہ گئی ہے۔

نیشنل پارٹی کی مرکزی رہنما اور خواتین کی مخصوص نشست پر امیدوار طاہرہ خورشید نے کہا کہ گوادر کے دیہی علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ٹرن آؤٹ شہری علاقوں سے کم رہنے کا امکان ہے۔ ان کے مطابق دیہی علاقوں میں چونکہ خواندگی کی شرح کم ہے اور لوگ ووٹ کی اہمیت سے بھی زیادہ واقف نہیں ہیں۔

گوادر کی آبادی اور رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد

ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق ضلع گوادر کی آبادی 3 لاکھ 5 ہزار 160 نفوس پر مشتمل ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق ضلع گوادر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 36 ہزار 925 ہے جن میں مرد ووٹرز 73 ہزار 648 (53.79 فیصد) جبکہ خواتین ووٹرز 63 ہزار 277 (46.21 فیصد) ہیں۔

2018 کے الیکشن میں ٹرن آؤٹ

2018 کے الیکشن میں حلقہ پی بی 51 گوادر میں کل رجسٹرڈ ووٹرز 1 لاکھ 20 ہزار 341 تھے جن میں مرد رجسٹرڈ ووٹرز 66 ہزار 526 جبکہ خواتین ووٹرز 53 ہزار 814 تھے اور کل 64 ہزار 292 ووٹ کاسٹ ہوئے۔ مرد ٹرن آؤٹ 55.1 فیصد جبکہ خواتین کا ٹرن آؤٹ 44.88 فیصد اور ٹوٹل ٹرن آؤٹ 53.42 فیصد رہا تھا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے میر حمل کلمتی 31 ہزار 248 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے تھے، جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے میر یعقوب بزنجو نے 16 ہزار 585 اور نیشنل پارٹی کے اشرف حسین نے 7 ہزار 128 ووٹ حاصل کیے تھے۔

2018 اور 2024 کے انتخابات میں کیا فرق ہے؟

2018 کے الیکشن سے پہلے بلوچستان میں راتوں رات بنائی گئی بلوچستان عوامی پارٹی میں مختلف علاقوں سے الیکٹ ایبلز ڈال کر الیکشن لڑوایا گیا اور 2018 کے الیکشن میں بلوچستان بھر سے زیادہ نشستیں جیت کر بلوچستان عوامی پارٹی بلوچستان کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بن گئی۔ 2018 میں ضلع گوادر ایک صوبائی اسمبلی اور گوادر کم کیچ لسبیلہ کی قومی اسمبلی کی نشست پر مشتمل تھا اور اس سے گوادر کے امیدواروں کے لئے قومی اسمبلی کی الیکشن جیتنا بڑا مسلئہ تھا۔ 2018 کے قومی اسمبلی کے الیکشن میں گوادر کم لسبیلہ سے آزاد امیدوار محمد اسلم بھوتانی نیشنل پارٹی کی حمایت سے جیت گئے تھے جبکہ مخالف امیدوار بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق صدر اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل ہار گئے تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما محمد بزنجو نے کہا کہ گوادر کا حلقہ جغرافیائی حوالے سے کافی بڑا ہے اور اس میں امیدواروں کو علاقوں تک پہنچنے اور الیکشن مہم چلانے میں مشکلات درپیش ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ ووٹ تقسیم ہوں گے اور مضبوط ٹیم ورک رکھنے والا امیدوار جیت سکتا ہے۔ ٹرن آؤٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ 2018 کے مقابلے میں ٹرن آؤٹ زیادہ ہونے کا امکان ہے اور جیتنے کا مارجن 2018 کے الیکشن سے کم ہو گا۔

2024 کے الیکشن میں پی بی 51 گوادر کو پی بی 24 میں بدل دیا گیا ہے جبکہ نیشنل اسمبلی کی نشست این اے 272 گوادر کم لسبیلہ کو این اے 259 گوادر کم کیچ کر دیا گیا ہے۔ گوادر اور کیچ کی سیاسی پارٹیاں اس عمل کو مثبت کہتی ہیں کہ گوادر اور کیچ چونکہ ایک دوسرے سے قریب علاقے ہیں جبکہ لسبیلہ گوادر سے سینکڑوں میل دور ہے۔

الیکشن کمیشن کے صوبائی میڈیا کوآرڈینیٹر غوث بخش بلوچ نے بتایا کہ معذوری کے شکار افراد کا ٹرن آؤٹ بڑھانے کے لئے ریمپ لگائیں گے تاکہ وہ زیادہ تعداد میں ووٹ کاسٹ کریں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان گوادر آفس کے ایک اہلکار کے مطابق ووٹرز کو آگہی فراہم کرنے اور ٹرن آؤٹ بڑھانے کے لئے ہر ماہ ووٹر ایجوکیشن کمیونٹی پروگرام کے ذریعے لوگوں کو ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے آگہی دی جاتی ہے۔

گوادر سے ابھرنے والی نئی تحریک

نومبر 2021 میں گوادر کی سطح پر بننے والی ' حق دو تحریک' اس وقت گوادر کی پارلیمانی سیاست میں اہم جزو بن چکی ہے۔ 2018 کے الیکشن میں گوادر میں اصل مقابلہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور بلوچستان عوامی پارٹی کے درمیان تھا مگر اس مرتبہ جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمٰن کی سربراہی میں گوادر سے ابھرنے والی حق دو تحریک ایک بڑی قوت بن کر ابھری ہے اور حالیہ بلدیاتی الیکشن میں گوادر کی سطح پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز کے مشترکہ امیدواروں کو شکست دے کر گوادر میں ایک حیران کن نتیجہ حاصل کیا تھا۔

2024 کے الیکشن میں قوم پرست جماعتوں کا مقابلہ حق دو تحریک سے ہو گا۔ حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن حلقہ پی بی 24 گوادر سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

حلقہ پی بی 24 گوادر سے الیکشن لڑنے والے اہم امیدوار

ریٹرننگ آفیسر حلقہ پی بی 24 گوادر کی جانب سے جانچ پڑتال کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ گوادر کے حلقے سے 24 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی درست قرار پائے گئے ہیں جبکہ این اے 259 گوادر کم کیچ کی قومی اسمبلی کی نشست پر 31 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔

حلقہ پی بی 24 گوادر سے الیکشن لڑنے والے اہم امیدواروں میں بی این پی کے رہنما اور گوادر سے تین مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہونے والے میر حمل کلمتی، حق دو تحریک بلوچستان کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن، نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما میر اشرف حسین، سابق تحصیل ناظم اورماڑہ اور ذکری فرقے کے مذہبی پیشوا سید مہیم جان، بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سینیٹر کہدہ بابر شامل ہیں۔ جبکہ این اے 259 گوادر کم کیچ سے نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک، حق دو تحریک کے چیئرمین حسین واڈیلہ، سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال، سابق ایم این اے میر یعقوب بزنجو سمیت پیپلز پارٹی کے رہنما حاجی ملک شاہ شامل ہیں۔

پی بی 24 گوادر سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار اور نیشنل پارٹی کے رہنما میر اشرف حسین نے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد ریٹرننگ افسر کے دفتر کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں ساحل اور وسائل کو بچانے کے لئے الیکشن لڑ رہا ہوں، ہماری جدوجہد کا مقصد ساحل اور وسائل کا تحفظ ہے کیونکہ ضلع گوادر کا ذریعہ معاش ساحل سے وابستہ ہے۔ سابق نمائندوں نے گوادر کی معیشت پر کام نہیں کیا۔ میں جیتنے کے بعد اس پر فوکس کروں گا۔ ان کے مطابق سی پیک سے مقامی لوگ مستفید نہیں ہو رہے ہیں، منتخب ہو کر سی پیک کے پروجیکٹ میں نوجوانوں کے روزگار کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھاؤں گا اور ایک دیوار بن کر گوادر کے عوام کے حقوق کا تحفظ کروں گا۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور سینیٹر کہدہ بابر نے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ڈے پر گھروں سے نکل کر ووٹ کاسٹ کریں کیونکہ آپ لوگوں کے ووٹ سے تبدیلی آئے گی۔

محمد بزنجو کے مطابق الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ گوادر کے بنیادی مسائل اب تک حل نہیں ہو سکے ہیں۔ ان کے مطابق روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور ساحل و وسائل کا تحفظ انتخابی امیدواروں کے لئے اہم چیلنج ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے ذرائع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی معیشت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ گوادر میں اب بھی پانی اور صحت کی بنیادی سہولیات ناپید ہیں۔