گذشتہ برس اکتوبر میں اس وقت کے ISI سربراہ جنرل فیض حمید کی بطور پشاور کور کمانڈر تبدیلی کے موقع پر ہونے والے تنازعے کے بعد یہ تو طے تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اب اپنی مدت مکمل نہیں کر پائیں گے۔ فوری طور پر ان کو نکالنا بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ نومبر تک تو وہ کھینچ تان کر ISI سربراہ کے تبادلے کو بھی لے ہی گئے تھے۔ اور پھر IMF سے ہوئی ڈیل، سٹیٹ بینک ترمیمی بل اور اس کو پاس کروانے کے بدلے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کا ووٹ کا حق منوانے کے بل بھی پاس ہوئے۔ لہٰذا جنوری اسی الٹ پھیر میں گزر گیا اور یوں فروری میں سیاسی جماعتوں کی تیزی سے ہونے والی مشاورت کے بعد مارچ کی 8 تاریخ کو اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی جس پر یوں تو مارچ کے وسط میں ووٹنگ مکمل ہو جانی چاہیے تھی لیکن اس میں عمران خان حکومت لیت و لعل سے کام لیتی رہی اور نتیجتاً کھینچ تان کے 11 اپریل تک لے گئی لیکن خان صاحب کا جانا ٹھہر چکا تھا اور وہ بالآخر نکالے ہی گئے۔ بھلے کچھ تاخیر سے۔
عمران خان نے دیگر تمام حکمرانوں کی طرح یہ بیانیہ اپنایا کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ نے نکلوایا ہے اور اس کے لئے عدالتوں کی مدد لی گئی ہے۔ یہ بیانیہ اپنانے والے وہ پہلے وزیر اعظم بھی نہیں تھے اور آخری بھی نہیں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو تسلیم نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ عمران خان حکومت روزِ اول سے اسی کے سہارے کھڑی تھی اور اس سہارے کا ہٹنا اپنے آپ میں ہی ایک سیاسی عمل تھا جس پر عمران خان کا ناک بھوں چڑھانا بنتا تھا، البتہ یہ طے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جو فیصلہ اب کیا تھا، یہی درست تھا۔ سیاسی عمل میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم، اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔ جب آپ نے خود ایک بیانیہ بنانے میں اس قدر کسی شخص کی مدد کی ہو اور پھر آپ کی اس سے کسی بات پر ان بن ہو جانے یا کچھ لوگوں کے بقول ملکی معاشی صورتحال کی ابتری کا یکایک ادراک ہو جانے کی صورت میں اس سے اپنی حمایت کھینچ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اب اسے بھگتنا بھی تو ہوگا نا۔ جس اسٹیبشلمنٹ نے عمران خان کو بنایا تھا، اسے بھگتنا بھی اسی اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے تھا۔ اس کے لئے وہ تمام اقدامات کرنا ناگزیر تھے جو اس کے لئے راہ ہموار کرتے ہوئے نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے خلاف لیے گئے تھے۔ یقین کیجیے آپریشن عمران خان اس سے آدھی محنت کا متقاضی تھا۔ لیکن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کی جانب سے مکمل طور پر غیر سنجیدگی دکھائی گئی۔ یہ دونوں ایک دوسرے پر یہ ذمہ داری ڈالتے رہے اور نتیجتاً کچھ ہفتوں بعد دوسری سائیڈ کو موقع مل گیا کہ وہ اپنا داؤ کھیلے۔ ایسا نہیں کہ یہ داؤ پیچ آپ کو کھیلنے نہیں آتے۔ آپ نے بس کھیلے نہیں۔ غیر جانبداری کا ڈرامہ کچھ زیادہ ہی لمبا کھینچ لیا گیا۔ جو اقدامات 11 سے 14 اپریل کے دوران لے لیے جانے چاہیے تھے وہ آج تک فیصلے کے انتظار میں پڑے گل سڑ رہے ہیں۔ اور اب تازہ فلم مارکیٹ میں یہ آئی ہے کہ اس کا دباؤ اتنا ہے کہ الیکشن کروانا لازم ہو گیا ہے۔
خاطر جمع رکھیے، ایسا کوئی دباؤ نہ پہلے تھا، نہ اب ہے۔ عمران خان کے چند ہزار کے جلسے اور مصنوعی اور حقیقی اکاؤنٹس کے امتزاج سے بنے ٹویٹر ٹرینڈز قطعاً اس قابل نہ تھے کہ ملک کے طاقتور ترین ریاستی ادارے کی کانپیں ٹانگنے لگیں۔ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے اور اسی لئے شہباز شریف کو چاہیے کہ ایک منٹ ضائع کیے بغیر انتخابات کی طرف پیش قدمی شروع کریں۔ انہیں سازش کو بھانپنا ہوگا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کبھی اس ملک کے لئے اپنا لاڈلا قربان نہیں کرے گی۔ یہ ایک حافظ سعید قربان نہیں کرتی، عمران خان کا تو ایک بڑا ووٹ بینک ہے جو ان کے لئے ہمیشہ ایک اثاثہ رہے گا۔ نیب کا قانون بھی ان کا اپنا قانون ہے۔ یہ کسی صورت اس میں تبدیلی نہیں ہونے دے گی۔ اس نے دہائیوں اس کے ذریعے سیاسی انجینیئرنگ کی ہے اور یہ وقتی غیر جانبداری کا سوانگ رچانے کی قیمت نیب کے قانون میں ترمیم کی صورت میں ادا کرنے کو کبھی راضی نہ ہوگی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینا بہرحال سازشیں ہیں جنہیں الیکشن ایکٹ سے نکالا جانا چاہیے۔ اس کے لئے اگلے ایک ہفتے کے اندر اندر قانون سازی مکمل کر کے اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔
اس میں قباحت کم از کم یہ نہیں ہونی چاہیے کہ عمران خان کا بیانیہ عوام میں بہت مقبول ہے۔ جب آپ سڑکوں پر نکلیں گے، عوام کو حقائق بتائیں گے تو وہ آپ کی بات بھی سنیں گے۔ پاکستان کے عوام کو بے وقوف سمجھنا چھوڑ دیجیے۔ فی الحال لیگی امیدواروں کے لئے یہ دلیل دینا نسبتاً آسان ہے کہ عمران خان ڈالر کو 115 سے 190 پر لایا، ہم نے کوشش کی کہ اسے سنبھالیں لیکن اس نے IMF کے ساتھ ایسا معاہدہ کر رکھا تھا کہ ہم مجبور تھے اور عوام پر بوجھ لادنے کی بجائے ہم نے اپنی حکومت کی قربانی دے دی مگر اس ملک دشمن فیصلے کی تائید نہیں کی۔ یہ دلیل ابھی قابلِ اعتبار ہے کہ جب ڈالر محض 190 سے 198 پر آیا ہے۔ چھ ماہ بعد جب یہ 225 روپے پر ہوگا تو کوئی اس بات پر اعتبار نہیں کرے گا کہ یہ سب عمران خان کا کیا دھرا ہے، بھلے اس میں کچھ سچائی شامل ہی کیوں نہ ہو۔
اصل قباحت اتحادیوں کی رائے سے متعلق ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت مدت پوری کرے۔ اس میں پیپلز پارٹی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں۔ انہیں پنجاب میں جتنی سیٹیں ڈیڑھ سال بعد ملنے کی امید ہے، اس کی آدھی ابھی آفر کر دیں اور معاملے کو یہیں ختم کریں۔
یقین کیجیے ملک کے جو حالات ہیں، ڈالر کی قیمت جو آسمان کو چھو رہی ہے، لوڈ شیڈنگ سے جس طرح عوام کئی سال بعد ایک بار پھر اللہ کی پناہ مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں، اگر یہی حالات رہے تو ڈیڑھ سال چھوڑیے، صرف چار ماہ بعد صورتحال یہ ہوگی کہ ن لیگی امیدوار گلیوں میں انتخابی مہم چلانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ جہاں جائیں گے لوگ مہنگائی پر سوال کریں گے اور 'چور، چور' کے نعرے ہر طرف پیچھا کریں گے۔ جیسا کہ مزمل سہروردی کے مطابق نواز شریف نے انہیں کہا تھا، اقتدار اور ووٹ بینک میں سے میں نے ہمیشہ ووٹ بینک کا انتخاب کیا ہے۔ اقتدار چلا جائے تو ووٹ بینک واپس لا سکتا ہے۔ گیا ووٹ بینک واپس نہیں آتا۔شہباز شریف کو بھی سمجھنا ہوگا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔
ٹیگز: Election, nawaz sharif, pakistan, PDM, PMLN, Politics, Shahbaz Sharif, الیکشن, انتخابی مہم, مسلم لیگ ن, نواز شریف, وزیراعظم شہباز شریف