گوادر نا صرف جغرافیائی اہمیت کا حامل ایک جزیرہ نما شہر ہے بلکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری اور قدرتی طور پر گہرے سمندر کی وجہ سے گوادر پورٹ اور گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک کی نظریں اس خطے پر مرکوز ہیں۔ یہ خطہ جو ماضی میں قوم پرستانہ سوچ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کا مضبوط گڑھ رہا ہے اور اس شہر کے گلی کوچوں میں نظریاتی سیاست کی گونج سنائی دیتی تھی یہاں اب ایسا نہیں ہے بلکہ اب نظریات کی جگہ دولت کے بل بوتے پر گوادر کی قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تین خاندان جو تخت گوادر پر براجمان رہے
1970 میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جب بلوچستان کو صوبائی حیثیت کا درجہ دیا گیا تو ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں بلوچستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کی 20 نشستوں میں مکران کے حصے میں دو نشستیں آئیں جہاں نیشنل عوامی پارٹی کو فتح حاصل ہوئی۔ نیپ کی حکومت 9 ماہ تک چلی اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر ضیاء الحق ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔
ضیا دور میں 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر جب عام انتخابات ہوئے تو ضلع گوادر کو صوبائی اسمبلی کی 2 نشستیں دی گئیں۔ پسنی اورماڑہ سے ذکری فرقے کے روحانی پیشوا سید داد کریم الیکشن جیت کر منتخب ہوئے تو گوادر جیوانی کی نشست پر میر عبدالغفور کلمتی بلامقابلہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ اس کے بعد 1988 اور 1990 کے الیکشن میں میر حسین اشرف منتخب ہوئے۔ 1993 میں ذکری فرقے کے مذہبی پیشوا سید شیر جان، 1997 میں میر عبدالغفور کلمتی گوادر سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے۔
مشرف دور میں ہونے والے 2002 کے انتخابات میں سید شیر جان دوسری بار رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2008،2013 اور 2018 کے الیکشن میں میر حمل کلمتی لگاتار تین مرتبہ گوادر سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ میر حمل کلمتی کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ لگاتار 15 سال تک گوادر سے منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔
جب تینوں خاندانوں نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑا
گوادر کی سیاسی تاریخ کا اگر باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو اکثر نظر آتا ہے کہ تینوں خاندان کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کے اتحادی ہوتے ہیں جبکہ صرف دو مرتبہ ایسا ہوا کہ تین خاندانوں نے بیک وقت ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑا۔ گذشتہ تین الیکشن میں سید فیملی کسی نہ کسی طرح میر حمل کلمتی کی اتحادی رہی ہے۔
1993 کے الیکشن میں ان تین سیاسی خاندانوں کا پہلی بار مقابلہ ہوا تھا۔ سید فیملی کے سید شیر جان نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 9899 ووٹ لیکر الیکشن جیتا تھا جبکہ میر فیملی کے میر عبدالغفور کلمتی نے 8489 ووٹ اور میر حسین اشرف نے 5965 ووٹ لیے تھے۔ یہ تینوں امیدوار اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
دوسری بار 2008 کے الیکشن میں میر عبدالغفور کلمتی کے صاحبزادے میر حمل کلمتی نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر 15343، میر اشرف حسین نے 8246 اور سید فیملی کے سید معیار جان نوری نے 6953 ووٹ لیے تھے۔ یاد رہے بلوچ قوم پرست پارٹیوں نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا اور نیشنل پارٹی نے اس الیکشن میں ق لیگ کے امیدوار میر حمل کلمتی کو سپورٹ کیا تھا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
2024 کے متوقع الیکشن میں تیسری بار یہ خاندان ایک دوسرے کے خلاف مدمقابل ہیں۔ میر حمل کلمتی بلوچستان نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر، میر اشرف حسین نیشنل پارٹی جبکہ سید مہیم جان آزاد حیثیت اور پیپلز پارٹی کی حمایت سے الیکشن لڑ رہا ہے۔
1985 کے الیکشن سے 2018 کے عام انتخابات تک گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر یہ تینوں خاندان کسی نہ کسی طرح اقتدار میں شراکت دار رہے ہیں اور گوادر کی تاریخ میں صوبائی اسمبلی کی نشست ان خاندانوں کے علاوہ کسی نے نہیں جیتی۔ اس مرتبہ ایک بار پھر ان تینوں خاندانوں سے وابستہ امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔
کیا 'حق دو تحریک' تاریخ بدلے گی؟
نومبر 2021 کو گوادر کی سطح پر بننے والی 'حق دو تحریک' اب 'حق دو تحریک بلوچستان' بن چکی ہے اور جماعت اسلامی کے صوبائی نائب امیر مولانا ہدایت الرحمٰن اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ تحریک ضلع بھر میں فعال اور منظم ہے۔ لوگوں کی بھرپور حمایت اور گوادر میں بڑے عوامی اجتماع سے یہی لگ رہا ہے کہ حق دو تحریک کو عوامی سطح پر کافی پذیرائی مل چکی ہے۔ یاد رہے حق دو تحریک کی جانب سے دو مرتبہ گوادر میں لمبے عرصے تک دھرنے دیے گئے اور بڑے پاور شو کیے گئے جن میں خواتین بھی شامل ہوئیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا حق دو تحریک گوادر میں خاندانی سیاست کے جمود کو توڑ پائے گی یا یہ سلسلہ حسب روایت جاری رہے گا۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ امکان ہے کہ اس مرتبہ گوادر میں اقتدار ان تینوں خاندانوں سے باہر نکل سکتا ہے اور ہو سکتا ہے مولانا ہدایت الرحمٰن گوادر سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہو سکتے ہیں۔
عوامی مسائل اور گوادر کا خاموش ووٹر
کہنے کو تو گوادر جزیرہ نما شہر ہے اور ضلع گوادر کے چاروں تحصیل ہیڈکوارٹرز میں نیلگوں سمندر اپنے پیچ و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ کبھی کبھار نہیں بلکہ گرمیوں کی آمد کے بعد سی پیک کے شہر میں پیاسے لوگ سڑکوں پر آتے ہیں، کچھ ٹائر جلا کر اور نعرے لگا کر اپنا غم و غصہ ہلکا کرتے ہیں اور شدید گرمی میں رات بھر مچھروں کے سامنے بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ صبح دفاتر کا رخ کرنے والے رات بھر بے خوابی کی وجہ سے اونگھنے لگتے ہیں۔
مقتدر قوتوں کے مطابق سی پیک اور گوادر پورٹ سے پاکستان کی معیشت تبدیل ہوگی اور بقول ان کے چائنہ کے اشتراک سے جاری سی پیک نامی پروجیکٹ گیم چینجر ہے۔ اس کے برعکس پیاسے اور گرمی کے ستائے گوادر کے عوام دو بوند پانی اور آنکھ بھر روشنی کو ترس رہے ہیں۔
ملک کے دیگر علاقوں کی طرح گوادر میں بھی الیکشن ہو رہے ہیں اور ماضی کے پرانے کھلاڑی بھیس بدل کر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ میدان میں مُلا اور ملائی بھی موجود ہیں، قوم پرست اور وفاق کی مضبوطی کے دعوے دار بھی انہی پرانے حربوں کے ساتھ جھوٹے نعروں کے سہارے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کہیں بارہویں کھلاڑی بھی اس کھیل میں پویلین میں بیٹھ کر ٹیم کی جیت کا جشن پہلے سے منا رہے ہیں۔
سب کچھ بدلا، سال بدلے مگر جو چیز نہیں بدلی وہ گوادر کے عوام کے حالات ہیں جو پیاس اور روشنی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
شہر کے چوک چوراہوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اور بینر لگے نظر آتے ہیں۔ انتخابی گہما گہمی نہ سہی پھر بھی امیدوار انتخابی مہم چلاتے نظر آتے ہیں۔ انتخابی اتحاد بنتے جا رہے ہیں اور ماضی کے حلیف حریف بن کر اپنا غم و غصہ ایک دوسرے پر اچھال رہے ہیں تو کہیں حریف حلیف بن کر ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھانے میں مصروف ہیں۔
عوام کے بنیادی مسائل سے بے خبر انتخابی امیدوار اپنی مہم چلانے میں مصروف ہیں اور انہیں اتنا پتہ نہیں کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے عوام کا جینا محال ہو چکا ہے۔ اکیسویں صدی میں داخل ہو کر بھی گوادر کے شہری پیاسے ہیں اور دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی انہیں دو گھونٹ پانی کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں۔ بجلی کے ستائے عوام کبھی کوئی شاہراہ بند کرتے ہیں تو کبھی مایوس ہو کر اپنے دل کی بھڑاس سیاسی جماعتوں پر نکالتے ہوئے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔
شام کے وقت اپنی جھونپڑی سے نکل کر جب میں بازار کا رخ کرتا ہوں تو کھٹارا موٹر بائیک پر میرے دونوں بیٹے پہلے سے سوار ہوتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ابا گھر سے باہر جا رہا ہے۔
جب ہم بازار کی طرف جا رہے تھے تو میرے ڈھائی سالہ بچے میر آدینہ نے شہر میں بجلی کے کھمبوں پر لگے سیاسی جھنڈوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ابا یہ جھنڈے اتار کر مجھے دے دو۔ بچوں کو کیا پتہ کہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں، بجلی کے کھمبوں پر لگے یہ جھنڈے کس پارٹی کے ہیں اور باپ کیا نظریات رکھتا ہے۔ موٹر بائیک کے پیچھے سوار میرے لاڈلے بیٹے مہروان نے میر آدینہ کو روکتے ہوئے کہا کہ لالہ ان سیاسی پارٹیوں نے ہمیں کیا دیا ہے، اب بھی رات کو بجلی چلی جاتی ہے اور ہم مچھروں کے رحم و کرم پر سو جاتے ہیں۔ میں خاموشی سے بچوں کی باتیں سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ جن مسائل سے ہم گزر رہے ہیں انہیں اب ہمارے بچے بھی محسوس کرنے لگے ہیں۔