ہر الیکشن میں انتخابی امیدوار الیکشن کے وقت گوادر کی ترقی اور خوشحالی کے انتخابی نعرے اور منشور کے ساتھ الیکشن لڑتے ہیں مگر اب بھی گوادر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ ہر الیکشن میں یہ نعرے نئے ضرور ہو جاتے ہیں مگر ضلع گوادر کے بنیادی مسائل حل ہونے کا نام نہیں لیتے۔
1970 میں جب ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بلوچستان کو صوبائی حیثیت ملی تو مکران ڈویژن میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں تھیں۔ پھر 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں ضلع گوادر کو صوبائی اسمبلی کی نشستیں مل گئیں۔ 1988 کے الیکشن میں ضلع گوادر کی صوبائی نشستیں دو سے کم ہو کر ایک ہو گئی۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق ضلع گوادر کی آبادی 3 لاکھ 5 ہزار 160 نفوس پر مشتمل ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق ضلع گوادر میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 1 لاکھ 36 ہزار 925 ہے جن میں مرد ووٹرز 73 ہزار 648 (53.79 فیصد) جبکہ خواتین ووٹرز 63 ہزار 277 (46.21 فیصد) ہیں۔
ماضی میں گوادر سے جیتنے والے امیدوار
ماضی میں گوادر قوم پرستوں کا گڑھ رہا ہے اور اب بھی قوم پرست اس خطے میں مضبوط وجود رکھتے ہیں۔ گذشتہ 15 سالوں سے گوادر سے رکن صوبائی اسمبلی رہنے والے میر حمل کلمتی کا تعلق بھی ایک قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل سے ہے۔ میر حمل کلمتی کے والد میر عبدالغفور کلمتی دو بار، سید فیملی سے تعلق رکھنے والے مرحوم سید شیر جان بلوچ دو بار، نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما میر اشرف حسین کے والد مرحوم حسین اشرف گوادر سے دو مرتبہ رکن بلوچستان اسمبلی رہ چکے ہیں۔
گوادر میں پانی اور بجلی کے بحران پر سیاسی لوگوں کی رائے
سابق سینیٹر میر منظور گچکی کہتے ہیں کہ دنیا میں جہاں سمندر ہے وہاں کی حکومتیں سمندری پانی کو میٹھا کر کے پینے کے قابل بناتی ہیں، ان کے مطابق حکمران گوادر کے بنیادی مسائل حل کرنا نہیں چاہتے ہیں۔
سابق چیئرمین بلدیہ پسنی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے مرکزی رہنما کہدہ علی نے بتایا کہ اداروں کی کرپشن کی وجہ سے عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں، حالانکہ گوادر کے ڈیموں میں وافر مقدار میں پانی موجود ہے۔
وائس چیئرمین میونسپل کمیٹی گوادر ماجد جوہر نے بتایا کہ گوادر میں پانی کا مسئلہ ادارہ ترقیات گوادر اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے درمیان اختیارات کی جنگ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیموں سے شہر تک مین پائپ لائنوں کو بچھائے جانے کا کام ادارہ ترقیات گوادر نے کیا جبکہ سٹی ڈسٹری بیوشن پائپ لائن کی بچھائی بھی ادارہ ترقیات گوادر نے کی ہے۔ ان کے بقول ادارہ ترقیات گوادر ڈیموں سے شہر کے مین ڈسٹری بیوشن واٹر ٹینک تک پانی پہنچاتا ہے جبکہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ پھر شہر کے محلوں تک پانی سپلائی کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے۔
ماجد جوہر نے مزید بتایا کہ گوادر شہر کی ترقی پر اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود اب تک اہم بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ ان کے مطابق گوادر اولڈ سٹی چونکہ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ماسٹر پلان کا حصہ نہیں ہے اور گوادر میں ماضی میں جتنے کام ہوئے ہیں وہ اولڈ سٹی کے احاطے کے باہر ہوئے ہیں۔
مقامی صحافی شریف ابراہیم کے مطابق سی پیک کا جھومر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ دو سے تین ہفتوں بعد مکینوں کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ ان کے بقول حکمران گوادر میں پانی کے بحران کو حل کرنا نہیں چاہتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما محمد بزنجو کے مطابق گوادر میں پانی اور بجلی بحران ایک سنگین مسئلہ ہے اور حکمران اسے حل کرنا نہیں چاہتے ہیں۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا مؤقف
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی جو اس علاقے میں زیادہ تر ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور اس شہر کے ماسٹر پلان پر عمل درآمد کرانے کا ذمہ بھی ادارہ ترقیات گوادر کے پاس ہے۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے فوکل پرسن حفیظ دشتی کے مطابق ادارہ ترقیات گوادر اس وقت شہر کو یومیہ 25 سے 30 لاکھ گیلن فراہم کر رہا ہے جبکہ شہر کی ضرورت 35 سے 40 لاکھ گیلن پانی ہے۔ ان کے مطابق جی ڈی اے کی جانب سے گوادر کے دیہی علاقوں میں واٹر سپلائی کی پائپ لائن اور انڈر گراؤنڈ واٹر سٹوریج ٹینکس تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ جی ڈی اے گوادر شہر میں ڈیڑھ سو کلومیٹر نئی پائپ لائن کا منصوبہ مکمل کر چکا ہے۔ ان کے مطابق واٹر بکس کے مقام پر 20 ملین گیلن واٹر سٹوریج ٹینک کا کام تیاری کے آخری مراحل میں ہے اور یہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد گوادر میں بحران کا دیرینہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
گوادر اولڈ سٹی بحالی کے لئے جام کمال خان کے دور میں اربوں روپے کا ایک پروجیکٹ منظور ہوا جس پر اب تک کام جاری ہے۔ جی ڈی اے حکام اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ گوادر اولڈ سٹی جی ڈی اے کے ماسٹر پلان کا حصہ نہیں ہے اور اولڈ سٹی بحالی پروجیکٹ کے تحت گوادر اولڈ سٹی کو جدید طریقے سے بحال کیا جائے گا۔ اس میں آب نوشی کی سکیمیں، ثقافتی ورثوں کی ازسر نو بحالی سمیت متعدد سڑکوں کی تعمیر شامل ہے۔ ان میں سے کچھ کام پایہ تکمیل تک پہنچ گئے ہیں جبکہ کچھ پر کام جاری ہے۔
ماجد جوہر کے مطابق گوادر اولڈ سٹی کے مسائل ماضی میں اس لئے حل نہیں ہوئے کہ وہ گوادر ماسٹر پلان کا حصہ نہیں ہے اور ماسٹر پلان کے مطابق گوادر کی پرانی آبادی کو یہاں سے منتقلی کا آپشن زیر غور ہے۔
گوادر کو 2002 میں مشرف دور سے ایک معاہدے کے تحت ہمسایہ ملک ایران بجلی فراہم کرتا ہے اور جب ایران سے معاہدہ ہوا تو گوادر سمیت مکران کو 24 گھنٹے بجلی سپلائی کی گئی۔ اس وقت گوادر میں گرمیوں کے موسم میں طویل لوڈ شیڈنگ سے عوام کا جینا محال ہے۔ ماجد جوہر نے اس حوالے سے بتایا کہ گوادر سمیت ضلع بھر میں بجلی کی تاریں اور کھمبے خستہ حال ہیں جبکہ کیسکو کی جانب سے مرمتی کام نہ ہونے کی وجہ سے بجلی کے نظام میں لوڈ شیڈنگ کے علاوہ بھی تعطل ہوتا ہے۔
دوسری جانب کیسکو حکام لوڈ شیڈنگ کی وجہ بلنگ نہ ہونا بتاتے ہیں جبکہ صارفین کا کہنا ہے کہ ہم بل ادا کرتے ہیں مگر کیسکو اہلکار میٹر چیک کئے بغیر ریڈنگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے بھاری بھرکم بل ان کو تھما دیا جاتا ہے۔ کیسکو حکام کے اس حوالے سے کہنا ہے کہ ضلع گوادر میں بل نادہندگان اور بجلی چوروں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔
گوادر کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ہر الیکشن میں انتخابی امیدوار یہ نعرہ دہراتے ہیں کہ گوادر کے بنیادی مسائل حل کریں گے اور ہر پانچ سال بعد یہی نعرے پھر دہرائے جاتے ہیں۔ شہریوں کے مطابق اب یہ محض انتخابی نعرہ بن کے رہ گیا ہے کیونکہ جیتنے یا ہارنے کی صورت میں امیدوار الیکشن کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔