بہترین تعزیتی مضمون لکھنا واقعی ایک مشکل اور حساس کام ہوتا ہے۔ ایسا مضمون جسے پڑھ کر قاری کے دل میں مرنے والے کی یاد تازہ ہو جائے، اور اس کے جذبات میں گہرائی تک اتر جائے، وہی بہترین تعزیتی مضمون کہلاتا ہے۔
آج جب ہم مین سٹریم میڈیا کی بے حسی کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ میڈیا نے اکثر اہم شخصیات اور ان کے کارناموں کو نظرانداز کیا ہے۔ مثال کے طور پر گیلہ من وزیر ایک ممتاز شخصیت تھے جنہیں سوائے ایک امریکی چینل کے پاکستان کے کسی بھی میڈیا چینل نے کوریج نہیں دی۔ کیا وہ پاکستان کے باشندے نہیں تھے؟ کیا وہ اس وزیرستان کے باشندے نہیں تھے جس نے ملک کی سلامتی کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں؟
گیلہ من وزیر کی شاعری اور ان کی انقلابی سوچ نے دنیا بھر میں ان کے کروڑوں فینز اور فالوورز کو متاثر کیا تھا۔ وہ منظور پشتین کے قریب آئے اور پی ٹی ایم کے نظریے کے حامی بنے۔ یہی انقلابی سوچ انہیں وہاں لے گئی جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی۔ ان کے الفاظ ان کا اثاثہ تھے اور یہی الفاظ انہیں اس ادارے تک لے گئے جہاں خدا کسی کے دشمن کو بھی نہ لے جائے۔
قید میں گیلہ من وزیر کو جس ظلم کا سامنا کرنا پڑا، وہ الفاظ میں بیان سے باہر ہے۔ انہیں موت سے ڈرایا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور ہر دن انہوں نے موت کو قریب سے دیکھا۔ انہوں نے قبر میں خود کو زندہ گڑھتے دیکھا اور اپنی لاش کو دیوار پر لٹکتے ہوئے دیکھا۔ مگر ان کی موت ان کے قید ہونے کے وقت ہی ہو گئی تھی، جو زندہ تھا وہ محض ان کی لاش تھی۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
گیلہ من وزیر کی ایک نظم کا ترجمہ ہمارے فیس بک کے دوست وحید مراد نے کیا ہے جسے پڑھ کر آپ خود محسوس کریں گے کہ وہ کس کرب سے گزرا ہے۔
وہاں ایک لوہے کی کُرسی پڑی تھی
گرد جس کے فولاد کی زنجیر کَسی تھی
مجھے اُسی کُرسی پر پھر باندھا گیا
سانس تک لینے کو مُشکل بنایا گیا
کُرسی کے نیچے لگی آگ بڑھتی رہی
میرے تن بدن کے جلنے کی بُو مجھ میں بستی رہی
کچھ سزائیں فقط احساس میں ہیں
اور ان سے جلتے لمحے بیان سے باہر
سانپوں بچھوؤں سے ڈسوایا گیا
ایک سانس لیتے انسان کا گوشت کتوں کو کھلایا گیا
اور پھر ایک شخص آتا کہ کل صبح پھانسی دیں گے
میں خوش ہوا کہ اذیت ختم ہو گی
دل کو مسرت ہوتی کہ جلد مروں گا
بُزدلی کی آمد سے قبل عزت سے مروں گا
ہر رات وہ کہتے مجھے تیار رہو
پھانسی کا وقت ہے نزدیک بیدار رہو
مجھے اپنی ماں اور معصوم بیٹی کی یاد آتی
اور پھر اس دیس کی ہر مجبور ماں یاد آ جاتی
سوچتا کہ اچھا ہے کہ یہ موت وطن کے سب مجبور لوگوں کے لیے ہے
صبح ہوتی تو دھکے دے کر روانہ کرتے
ٹھڈوں اور ڈنڈوں سے روانہ کرتے
آنکھوں پر پٹی اور زخمی پاؤں لیے روانہ کرتے
کچھ وقت بعد عجیب حادثے کی منزل ہوتی
ہر طرف قبریں اور مردوں کا بسیرا تھا
میری آنکھوں کے سامنے کئی کم عمر جوان مار دیے
چند ساعتوں میں پانچ سات انسان مار دیے
وہ سب تیار تھے اور مجھے زندہ قبر میں اُتار دیا
کوئی ہاتھ میں کُدال اور بیلچے لیے
کئی نے بندوقیں میرے سر پر تانیں
منہ ڈھاٹوں سے چھپائے ہاتھوں پر خون
وہ انسانوں کے روپ میں قصاب کھڑے تھے
فرمان تھا بتاؤ ہماری بات تسلیم ہے کہ نہیں
آخری وارننگ ہے اپنی جان عزیز ہے کہ نہیں؟
پختونوں نے گیلہ من وزیر کی موت کے بعد ان کے احترام کا حق ادا کر دیا۔ ہر علاقے میں ان کی میت کا ایسا استقبال کیا گیا جو انہیں زندہ رہ کر ملنا نصیب نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا نے انہیں وہ مقام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ مگر مین سٹریم میڈیا نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا، کیونکہ یہ استعمار کے ہاتھوں میں تھا جس نے پختونوں کو تباہ و برباد کیا ہے۔
گیلہ من وزیر کی موت کے بعد، ان کے الفاظ زندہ رہیں گے اور ان کی آواز گونجتی رہے گی۔ ان کا پیغام اور انقلابی سوچ ہمیشہ کے لئے ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی اور ان کی قربانی کو کبھی نہیں بھلایا جائے گا۔