Get Alerts

کیمرے اور سوشل میڈیا کی ایجاد نے اخلاقیات کا تانا بانا ادھیڑ دیا ہے

تیسری آنکھ کو رتی بھر بھی احساس جرم نہیں ہوگا، ندامت کا سایہ بھی اس کے پاس سے نہیں گزرے گا۔ آج سوشل میڈیا کا نشہ کرنے والے دوسروں کے انتہائی نجی لمحات کو موبائل سکرینوں پر دیکھ کر لذت پاتے ہیں اور اسے آگے دوستوں میں پھیلانے کو سماجی و قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔

کیمرے اور سوشل میڈیا کی ایجاد نے اخلاقیات کا تانا بانا ادھیڑ دیا ہے

انسان کی تمام تر ترقی بصارت اور سماعت کی مرہون منت ہے۔ اگر یہ دونوں قوتیں انسان کو حاصل نہ ہوتیں تو ترقی کا سفر ناممکن تھا۔ قدرت نے بصارت کے لیے آنکھیں عطا کیں اور آنکھیں بصیرت کا موجب بنتی ہیں۔ بصیرت کا دائرہ صرف دائیں بائیں اور اوپر نیچے دیکھنے کا نام نہیں ہے۔ موجود اشیا کا آنکھوں سے دیکھنا بصیرت کا ایک جز ہے۔

بصیرت کا میدان وسیع ہے۔ اس میدان میں شرم و حیا کے ٹھکانے بھی ہیں، اس میں نیکی اور بدی کے درمیان امتیاز کرنے والے ناکے بھی ہیں، اس میں اخلاقی اقدار کا ادراک کرنے والی چوکیاں بھی ہیں، اس میدان میں فہم و سمجھ کے قلعے بھی ہیں، اس میدان میں تہذیب و جھجک اور ادب و شائستگی کے شجر بھی ہیں۔

انسانی آنکھ کے افعال بڑے پُر اسرار، تہہ در تہہ اور شعور و ذہن کی قوتوں میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ آنکھ سے بصارت کا دروازہ کھلتا ہے اور بصارت کے راستے بصیرت کی طرف لے جاتے ہیں، پھر آگے بصیرت کی روشنی دل کے تہہ خانوں میں اجالا کرتی ہے۔ خارجی روشنی آنکھ سے ٹکراتی ہے اور پھر آنکھ کے اندرونی پوشیدہ خانوں میں شعاعوں اور اندھیروں کی آنکھ مچولی کا کھیل شروع ہوتا ہے۔

اس ہنگامے میں دماغ بھی کود پڑتا ہے اور پھر شعور و ذہن کی قوتیں خارجی روشنی کے ٹکڑے کو اپنی گود میں لے کر اسے ادراک و فہم کا دودھ پلاتی ہیں۔ اب ایک خارجی شعاع سے شروع ہونے والا کھیل بصیرت کے گیت میں ڈھلنے لگتا ہے۔

ہزاروں سالوں تک انسان انہی دو آنکھوں کے ساتھ بصارت و بصیرت کے وسیع و عریض عالم کی سیر کرتا رہا۔ پھر زمین و آسمان بدل گئے۔ اب انسانی شور و غل میں مشینوں کی کھڑکھڑاہٹ بھی شامل ہو گئی، سسکیوں و قہقہوں میں جدید آلات کی بازگشت بھی سنائی دینے لگی۔ انسان مشینیں بنانے لگا اور مشینیں انسانوں کو بدلنے لگ گئیں۔ انسان مشینوں کے ساتھ جینے لگا۔

انسان اور مشین کا تعلق دھوکے پر مبنی رہا ہے۔ انسان اس زعم میں رہتا ہے کہ وہ مشینوں پر حکومت کرتا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی مشینوں کی محبت میں مجنوں بن جاتا ہے۔ انسان مشینیں ایجاد کرتا ہے اور پھر مشینیں بھی انسانوں کو اپنا ہم رنگ بنا کر ایک نیا انسان ایجاد کر لیتی ہیں، جیسے تیسری آنکھ ایجاد ہوئی اور تیسری آنکھ نے ایک نیا انسان تخلیق کر ڈالا۔

یہ تیسری آنکھ کیمرے کی آنکھ ہے۔

ابتدا میں جب تیسری آنکھ کا سائز بڑا تھا تو اس کی وارداتیں بھی کم خطرناک اور محدود تھیں، لیکن جوں جوں یہ آنکھ سائز میں چھوٹی اور سمارٹ ہوتی گئی، اس کی کارستانیاں ہلاکت خیز، سرد مہر اور بے رحم ہوتی گئیں۔

تیسری آنکھ کا فقط یہ کام ہے کہ اپنے سامنے منظر کو فوکس کر کے اسے ریکارڈ کر لے۔

تیسری آنکھ کی تاریں اخلاقیات سے نہیں جڑتیں۔ جس نوعیت کا بھی غیر اخلاقی، نامناسب اور نازیبا منظر ہو گا، یہ آنکھ اسے ریکارڈ کرنے میں بالکل نہیں جھجکے گی، ذرا سا بھی تہذیب کا خیال نہیں کرے گی اور ایک لمحے کے لیے بھی شرم و حیا اس پر غالب نہیں آئے گی۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

تیسری آنکھ کو رتی بھر بھی احساس جرم نہیں ہوگا، ندامت کا سایہ بھی اس کے پاس سے نہیں گزرے گا۔ تیسری آنکھ نے انسانی آنکھ کو بھی پتھرا دیا ہے۔ آج سوشل میڈیا کا نشہ کرنے والے دوسروں کے انتہائی نجی لمحات کو موبائل سکرینوں پر دیکھ کر لذت پاتے ہیں اور اسے آگے دوستوں میں پھیلانے کو سماجی و قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔

تیسری آنکھ نے دوسروں کے بیڈ رومز میں جھانکنے کو سوشل میڈیا پر تفریح گاہ کی شکل دے دی ہے۔ جب آپ اپنی مرضی سے تفریح گاہ میں جاتے ہیں تو آپ میں کوئی احساس جرم و ندامت و شرم و حیا کے احساسات نہیں گزرتے کیونکہ آپ تو تفریح لے رہے ہیں۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں دوسروں کی نجی زندگی کو تخت و تاراج کر دینا بھی ایک سستی تفریح بن چکا ہے۔

ایک دور تھا کہ جب گھر میں ایک بھائی دوسرے بھائی کے کمرے میں جھانک رہا ہوتا تھا تو اس کی یہ حرکت انتہائی معیوب سمجھی جاتی تھی۔ اب سائبر جنریشن واش روموں اور بیڈ روموں میں گھس گئی ہے لیکن ندامت کے بجائے مکروہ قہقہے اور غلیظ سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔

نجی لمحات کا کلپ جب وائرل ہوتا ہے تو سوشل میڈیا کے ناظرین اس ویڈیو کلپ کو فلمانے والے اور اسے پھیلانے والوں کو برا بھلا نہیں کہتے، ان سے نفرت کا اظہار نہیں کرتے، ایسے عناصر کا سماجی بائیکاٹ نہیں کرتے، بلکہ ہوتا کچھ یوں ہے کہ اس وائرل ویڈیو کلپ کا پوسٹ مارٹم شروع ہو جاتا ہے۔ ناظرین اس پر خوب تبصرے کرتے ہیں، لطف اٹھاتے ہیں اور جب بیزار ہو جاتے ہیں تو کسی تازہ کلپ پر جھانکنے لگتے ہیں۔

وائرل ہونے والے ویڈیو کلپس چیونگم کی طرح ہوتے ہیں، چیونگم جب تک منہ میں مزہ دیتی رہتی ہے اندر رہتی ہے اور جب بے لطف ہو جاتی ہے تو اسے تھوک دیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا بصری لذات کی دعوت عام بن چکا ہے۔ اس بصری دستر خوان پر لوگوں کی پرائیویسی سے کشید کیے ہوئے مشروب پائے جاتے ہیں۔ بصری لذات کی دعوت میں چادر اور چاردیواری کے مسالے سے انواع و اقسام کے پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ اس دعوت میں آپ بلا خوف و خطر حصہ لے سکتے ہیں، اپنے ذوق و پسند کے مطابق پکوان تیار کر سکتے ہیں۔

فرض کریں آپ گلی سے گزر رہے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ دو آدمی آپس میں کسی معاملے پر تکرار کر رہے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تکرار ہاتھا پائی اور گالم گلوچ میں بدلنے والی ہے۔ آپ اس صورت حال کو بھانپ کر جیب سے سمارٹ فون نکالتے ہیں اور گالم گلوچ و ہاتھا پائی کے مناظر تیسری آنکھ سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، پھر اس ادبی شاہکار کو سوشل میڈیا کی زینت بنا دیتے ہیں۔ تاریک آنکھوں اور منجمد کانوں والے ناظرین اس دعوت کو خوب اڑاتے ہیں۔

قابل افسوس امر یہ ہے کہ ناظرین وائرل ویڈیو کلپ کے مندرجات و جزئیات کا تو بے باک تجزیہ اور پوسٹ مارٹم کرتے ہیں، لیکن بغیر اجازت دوسروں کی ویڈیو بنانے والے کو برا نہیں کہتے، نا ہی اس حرکت کو برا سمجھتے ہیں۔ اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ سڑک پر لاش پڑی ہو اور اردگرد مجمع قاتل کو پکڑنے کے بجائے مقتول کے لباس، جوتوں اور کلائی پر بندھی گھڑی پر مزے سے تبصرے کر رہا ہو۔ مجمع میں قاتل اور قتل کی وجہ کا سراغ لگانے کی طاقت و صلاحیت تو نہیں ہے لیکن مجمع کے پاس اتنا تو احساس و ضمیر ہونا چاہیے کہ وہ اس دردناک قتل پر افسوس و غم کا ہی ذرا سا مظاہرہ کر لے۔

سوشل میڈیا نے بصیرت کو پسِ پشت ڈال کر عوام الناس کو نظری لذت کے سراب میں گم کر دیا ہے، جس سے انسانی معاشرے کی اخلاقیات کا انحطاط ہو رہا ہے۔