وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن سے قبل بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بڑی بڑی کابینہ کی شاہ خرچیوں سے عوام کو نجات دلائیں گے تاہم 18 اگست 2018 کو جب انہوں نے حلف لیا تو انکی کابینہ کے ارکان کی تعداد 21 تھی جن میں 12 ایسے وزراء و مشیروہ تھے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ سابقہ صدر جنرل مشرف کی کابینہ کا حصہ رہ چکے تھے۔ ان میں شیخ رشید، فواد چوہدری، طارق بشیر چیمہ، غلام سرور خان، ڈاکٹر فروغ نسیم، خالد مقبول صدیقی، خسرو بختیار، ڈاکٹر عشرت حسین ، عبدلرزاق داود ، ملک امین اسلم اور سابقہ وزیر تعلیم زبیدہ جلال شامل ہیں۔ تاہم چھوٹی کابینہ کے وعدے کو آہستہ آہستہ پس پشت ڈالتے ہوئے وزیر اعظم کی کابینہ کی تعداد بڑھتی گئی جو اب تک ففٹی مکمل کر چکی ہے ان میں 30 وزراء، 15معاونین خصوصی اور 5 مشیران شامل ہیں۔
اس کابینہ کی رد و بدل شروع سے ہی جاری ہے جہاں کئی وزراء و مشیران کے قلمدان تبدیل کئے گئے اورکئی وزراء و مشیران کو ہٹا کر دوبارہ لگا دیا۔ کپتان کے کھلاڑیوں کی پوزیشن کی تبدیلی میں ایک واضح تبدیلی تب دیکھنے کو ملی جب انہوں نے اپنی حکومت کے 'ارسطو' اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹا کر مشرف اور زرداری ادوار کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو تعینات کیا جبکہ اسد عمر کی وزارت کی تبدیلی کے ساتھ وفاقی وزیر صحت عامر کیانی کو ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں اپریل 2019 میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو ہٹا کر ان کی جگہ فردوس عاشق اعوان کو مشیر اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا۔
وزیر اعظم اور سابقہ صدر پرویز مشرف کے دیرینہ ساتھی اعظم سواتی کو نیب میں کیس انکوائری کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے بھی استعفیٰ وزیر اعظم کو پیش کر دیا تاہم ڈاکٹر ظفر مرزا کو خصوصی طور پر بیرون ملک سے بلایا گیا اور انہیں وزیر اعظم کا معاون خصوصی برائے صحت تعینات کر دیا گیا۔
اردو نیوز کی تحقیق کے مطابق وزیر اعظم کی کابینہ میں سب سے زیادہ تبدیلیاں معاونین خصوصی میں کی گئیں جہاں سب سے پہلے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا یوسف بیگ مرزا نے اپنا استعفیٰ دیا انکے بعد خیبر پختونخواہ کے سابقہ آئی جی اور پولیس ریفارمز کا مشن لئے آنے والے ناصر درانی نے مداخلت کی بنیاد پر اکتوبر 2018 میں استعفی پیش کیا۔ اسی طرح گزشتہ فروری میں وزیر اعظم کے سب سے قریب سمجھے جانے والے افتخار درانی نے بھی میڈیا ایڈوائزر کے طور پر اپنا استعفیٰ دیا۔ تاہم مشیران اور معاونین کی اہم شخصیات تب سبقدوش ہوئی جب کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے 20 وزراء اور مشیران کی دوہری شہریت کا معاملہ اٹھایا اور ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایسے میں وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ادروس نے استعفی دیا ساتھ ہی ساتھ معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی اپنے استعفے کا اعلان کر دیا۔ ڈاکٹر ظفر مرزا عالمی ادارہ صحت سے نوکری چھوڑ کر پاکستان آئے اور تانیہ ادروس کو بھی خصوصاً باہر سے بلایا گیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے نئے ممبر لیفٹینٹ جنرل عاصم باجوہ کا استعفی لینے سے انکار کیا جب ان پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ جنرل باجوہ کی طرف سے انکو پیش کیئے گئے ثبوتوں سے مطمئن ہیں اور انکا استعفیٰ لینے کیلئے وہ کسی کا بھی پریشر قبول نہیں کریں گے۔ تاہم کل جنرل عاصم باجوہ نے وزیر اعظم کو استعفی پیش کیا جو انہوں نے قبول کر لیا اور یوں وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کی تعدار پھر سے 50 ہوگئی ہے۔