پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات فرد واحد کی موج مستی کے اردگرد گھوم رہے ہیں۔ اتنی سیاسی غیر یقینی پاکستان کی تاریخ میں آج تک نہیں دیکھی گئی جس کا سامنا ملک اور عوام اس وقت کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی فیصلوں کو محض ڈھونگ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ فیصلے لیے جاتے ہیں پھر ڈھونگ کے ذریعے سے ان پر سیاست کی جاتی ہے اور عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ عوام کی تو پھر بھی خیر ہے جو پچھلے 75 سالوں سے بے وقوف بنتے چلے آ رہے ہیں مگر اس ڈھونگ کے ذریعے سے بڑے بڑے معتبر اداروں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکی جا رہی ہے اور ان کو بھی اپنی حماقتوں اور سیاسی نادانیوں کا آلہ کار بنایا جا رہا ہے۔ آئین کی حدود و قیود بھی مذاق بن کر رہ گئی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے سے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد پی ٹی آئی نے احتجاجاً بڑے پیمانے پر استعفے جمع کرائے تھے جنہیں اس وقت کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے قبول کر لیا تھا۔ تحریک انصاف ان استعفوں کی منظوری کے لیے سپریم کورٹ تک گئی تھی اور ہر جمہوری و غیر جمہوری ہتھکنڈا اپنایا گیا تھا کہ ان کے استعفے فی الفور منظور کیے جائیں۔ تحریک انصاف کے مطالبے پر بالآخر ان کے استعفے منظور کر لیے گئے اور الیکشن کمیشن نے 43 سیٹوں سے منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کر کے ان سیٹوں پر ضمنی الیکشن کروانے کا اعلان کر دیا۔ مگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد اور اپنی سیاسی پوزیشن کو کمزور ہوتے دیکھ کر تحریک انصاف 'ہن بندہ گل وی نہ کرے' والا مؤقف لے کر لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئی تاکہ ان کے استعفوں کو منطور نہ کرتے ہوئے عدالت الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔
لاہور ہائی کورٹ نے 8 فروری کو پاکستان تحریک انصاف کے ان 43 اراکین قومی اسمبلی کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کرنے والے فیصلے کو معطل کر دیا۔ عدالت میں استعفوں کی منظوری کو چیلنج کیا گیا تھا اور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کرانے سے روک دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کی درخواست کی سماعت کی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف کی جانب سے ان کے استعفوں کو قبول کرنے کا فیصلہ 'غیر قانونی' تھا کیونکہ انہوں نے نوٹیفکیشن جاری ہونے سے پہلے ہی اپنے استعفے واپس لے لیے تھے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم نے تو آئین، قانون اور اس ملک کی پارلیمنٹ کے ساتھ مذاق کیا تھا مگر سپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن اس کو سیریس معاملہ سمجھ بیٹھے تھے۔ ملک کے آئین اور پارلیمنٹ کو مذاق بنانے والوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ استعفے منظور کروانے کے لیے دھونس، زبردستی اور پھر سپریم کورٹ جانے والا بھی مذاق ہی تھا۔ آج تو سکول میں پڑھی ہوئی وہ کہانی یاد آ گئی کہ 'شیرآ گیا شیر آ گیا' اور پھر جب وہ واقعی آ گیا تو 'میں نے تو مذاق کیا تھا' کہہ کر کھسیانی ہنسی ہنسنے لگ گئے۔
آئین، قانون، پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ مذاق کرنے کی تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کی عادت بہت پرانی ہے اور ان کو ایسا کھلواڑ کرنے کا استحقاق بھی حاصل ہے۔ ان کو ایسی سیاسی بدمعاشیوں کا استحقاق عدالتوں میں بیٹھے ناخداؤں نے دیا ہے۔
چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران معزز عدالت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں کس طرح مداخلت کر سکتی ہے جبکہ پارلیمنٹ پاکستان کے آئین کی رو سے سپریم ادارہ ہے جس کے بنائے ہوئے قوانین اور اصولوں کے تحت عدالتیں اپنے فیصلے دیتی ہیں۔ یہ سن کر بے حد خوشی بھی ہوئی اور عدالتوں پر فخر بھی محسوس ہوا کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی انارکی کے دور میں ایسے ادارے اور افراد موجود ہیں جن کو اس ملک کے آئین اور پارلیمنٹ کی فکر ہے۔ مگر آج لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے نے حیران پریشان کر دیا ہے کہ شہر اور عدالتیں بدلنے سے کیا آئین اور قانون بھی بدل جاتے ہیں؟ شخصیات کے بدلنے سے اداروں کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں؟ جی ہاں ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا ہے 'ویلکم ٹو پاکستان'۔
تحریک انصاف کے استعفوں کا معاملہ خالصتاً پارلیمانی نوعیت کا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے آئینی اور قانونی اختیارات استعمال کرتے ہوئے یہ استعفے منظور کیے تھے بلکہ انہوں نے اسد عمر، پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی کے بار بار اصرار کے بعد اور تحریک انصاف کے بے بس اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے استعفے نہ منظور کرنے کی التجا کے باوجود تحریک انصاف کے پارلیمانی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے استعفے منطور کیے تھے۔ معزز عدالت نے یہ معاملہ پارلیمنٹ کو کیوں نہیں بھیجا کہ جس ادارے کا استحقاق ہے وہی ادارہ اس کا فیصلہ کرے گا۔ عدالت کے فیصلے سے ان افراد کا حوصلہ مزید بڑھا ہے جن کے نزدیک پارلیمنٹ کی پہلے ہی کوئی توقیر نہیں ہے۔
2021 میں جب سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے الیکشن ہوئے تھے تو پریذائڈنگ آفیسر نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین سینیٹ کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کے حق میں پڑنے والے 7 ووٹ منسوخ کر دیے تھے۔ جب اس معاملے پر پیپلز پارٹی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ان کو عدالت نے کہا کہ یہ پارلیمانی معاملہ ہے لہٰذا اس کو پارلیمنٹ میں ہی حل کیا جائے، عدالت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ تمام اداروں اور بالخصوص عدالتوں کو اس ملک کے آئین اور پارلیمنٹ کو مضبوط اور مؤثر بنانے کے لیے غیر جانبدار پالیسی اپنانی ہوگی تاکہ ان کے اوپر کسی خاص پارٹی اور سیاسی رہنما کی طرف داری کا الزام نہ آئے۔ عدالتوں کو سیاسی وابستگیوں جیسے عیبوں سے مبرا ہونا چاہئیے۔
کچھ ہی روز قبل لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے پرویز الہیٰ والے پارلیمانی معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے پرویز الہیٰ کو حکم امتناعی کے ذریعے سے وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔ میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ چیف جسٹس کا داماد پرویز الہیٰ کی حکومت میں پنجاب کا صوبائی وزیر تھا، اسی لیے پرویز الہیٰ اور تحریک انصاف کو عدالت سے خاص لطف و کرم میسر آ رہے ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی خاص قوموں، خاص طبقوں اور خاص صوبوں کو خاص مراعات ملنے پر باقی ملک میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک جانب آصف زرداری کو بیمار ہونے کے باوجود ایمبولینس پر عدالت لانے کا حکم سنایا جاتا ہے اور دوسری طرف 'بظاہر' بیمار لیڈروں کو ٹیکنالوجی کے ذریعے سے آن لائن پیشی کی عیاشیاں کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعظم کو جدہ اور لندن بھیج دیا جاتا ہے جبکہ قائد عوام کو جھوٹے مقدمے میں پھانسی کی سزا دی جاتی ہے۔ اگر پاکستان میں عدالتیں اب بھی ایسی ہی روش پر قائم ہیں تو اسلام میں جائز ہو یا نہ ہو، پاکستان کی مظلومیت اور بے بسی پر ماتم ضرور جائز ہے۔
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔