گلی میں آج چور نکلا

گلی میں آج چور نکلا
کوئی دس پندرہ دن ہوئے، لیپ ٹاپ اور فون دونوں فلیٹ ھذا سے چوری ہو گئے۔ پورا ہفتہ ڈھنڈیا پڑی رہی، بہتیرے کوتوال بلائے، قاصد دوڑائے گئے، کھرے اٹھائے، کھوجی بٹھائے گئے، مال مسروقہ تو کیا اس کا سراغ تک ملنا تھا نہ ملا۔ گلی میں جا بجا نصب کیمرے نرے بیکار اور ان کے مالکان سرے سے بیزار نکلے۔ ایک گمنام شعر یاد آیا۔ کوئی تصویر لے نہیں سکتا، ہر طرف کیمرے لگ ہوئے ہیں۔

کیولری گرائونڈ اور والٹن کے درمیان واقع یہ رہائشی علاقہ مدینہ کالونی کہلاتا ہے اور ایویں خامخا وہی ریاست مدینہ والی بات یاد دلاتا ہے۔ خیر اس دن پہلے صبح سے دوپہر تک اور پھر سوا دوپہر سے فل سہ پہر تک بجلی گئی رہی تھی۔

جب موصوفہ تشریف لے آئی تو مابغربت پسینہ دار و دیوانہ وار، اپنے اندر کے یثرب سے باہر مدینے کی گلیوں میں نکلے۔ اس حرکت سے جو ہرگز بابرکت ثابت نہ ہوئی، مقصد ہمارا اسی موبائل پر معمولی سا پیکج لوڈ کروانا تھا جس کے نیم جاں جسم کو ہم چارجرسے چمٹا چھوڑ آئے تھے۔ ہمارا اب کسی اور کا، لیپ ٹاپ بھی پاس ہی دم سادھے پڑا تھا۔

فرسٹ فلور کے اس کاریڈور میں ہمارے دروازے کے مقابل پڑوس کا دروازہ ہے۔ اسی دروازے پر ایک مرد عجیب سے پالا پڑا۔ تھوڑی دیر توقف کیا مگر چونکہ وہ ایک فیملی ہوم کی کال بیل پر بزی تھا اس لیے کوئی خاص تفتیش مناسب تھی نہ ممکن۔

پانچ منٹ بعد گرائونڈ فلور سے واپسی پر چوری کا پتا چلا تو شبہ اسی شخص پر گیا۔ پڑوسی نے بتایا کہ اس نامعلوم مرد نے ان سے کسی مزید نامعلوم فرد کے بارے میں پوچها اور بس۔ اس کے بعد ان کے بلب پنکھے تو سب جلتے رہے ہمارے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

اصل داستان یہاں ختم نہیں شروع ہوتی ہے۔ مابعد چوری دور میں مال مسروقہ کی یاد سے زیادہ دشوار مرحلہ محلے داروں کی نصیحت نما فضیحت کا سلسلہ تھا کہ کارجہاں کی طرح دراز تھا۔ کئی جگت آنٹیوں نے ناصرف ہمارا سارا سوشل کچا چٹھا پھرول کے رکھ دیا بلکہ لگے ہاتھوں معقول سا رشتہ کرانے کی پیشکش بھی کر ڈالی۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ سن رہا ہے نا توووو۔

کئی مہان انکلوں نے سرِراہ روکا اور اپنی بچہ پلاٹونوں کو ہمارے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کے چلاتے ہوئے جتایا کہ یہی تو ہیں وہ انکل جن کے ہاں چوری ہوئی ہے۔ چوک میں مشغول ڈکار ایک ویلے بزرگ نے فوری طور پر کورونا ویکسین لگوانے کا مشورہ دیا ہی تھا، دوسرے  نے جھٹ سے ٹوکا، کیوں منڈے دا کیرئیر خراب کرتے ہو، یہ کہتے ہوئے بجھکڑ دوم نے بجھکڑ اول کو ایک اور ہمیں دوسری آنکھ ماری۔

چور تو چوری کرکے، وہ بھی اگر خدا اور پولیس کو منظور ہوتا، اور وہ واقعی پکڑا جاتا تو جو بدنام ہوتا سو ہوتا، ہم جن کے ہاں چوری ہوئی البتہ مفت میں مشہور ہوگئے۔ تندور والے ہماری روٹیاں چھنڈ کے لگانے لگے، پھیری والے ایک آدھ آلو ٹماٹر پیاز نظر بچا کے تھیلے میں ڈال دیتے۔ اونگھتے ہوئے کریانچی تک نے جی کڑا کرکے کہا کہ پیسے نئیں بائوجی تو کوئی ایسی گل نئیں بعد میں آ جائیں گے، آپ تو اپنے ہی بندے ہیں، چھوٹے ایہہ ہزار دا چینج تے پھڑیں۔

یعنی ہم جو برسوں سے اس علاقے میں یوں رہتے چلے آ رہے تھے جیسے محاورے کے بتیس دانتوں میں روزمرے کی زبان۔ اب وہی ہم تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے کسی مقامی ہیرو یا ولن نہ سہی، ایک آئٹم کا سٹیٹس ضرور حاصل کر چکے تھے۔ آئٹم، لہوریوں کی اصطلاح میں وہ چیز ہے جسے یہ زندہ دل لوگ اردو میں ایٹم بولتے ہیں اور انگلش کا bum سمجھتے ہیں۔

خدا ان سب قدر دانوں کو معاف کرے یا بیشک نہ کرے۔ ان کی جوہر شناسی کا شکار ہو کر ہم جس ایٹم میں بدل رہے تھے اسے عرف خاص میں علاقے کی جانی پہچانی سماجی شخصیت کہا جاتا ہے۔ ایسے میں بندہ عاصی کو وہ پیمبرانہ دعا یاد آ کے رہی کہ اے خدا انہیں معاف کر دے، یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کر رہے ہیں!

اپنی اس بڑھتی ہوئی مقبولیت کے مارے، ہمیں تو یہ بھی ڈر رہنے لگا تھا کہ لوکل باڈیز کے یعنی مقامی بلدیاتی انتخابات میں اپنی قسمت سے مکمل مایوس کوئی پارٹی ہمیں اپنا امیدوار ہی نامزد نہ کر دے۔ شکر ہے کوئی سیاسی جماعت اپنی شکست کے بارے میں اتنی پرامید نہ تھی۔

قدرے بلکہ کافی کمینی سی بات ہے کہ ہفتہ بھر بعد یہی مشکوک اعزاز انہی رشک قمر ہمسایو کو بھی حاصل ہوا۔ یعنی وہی انوکھا لاڈلا چور ان کے ہاں سے بھی دو عدد فون اور ایک بٹوا اڑا لے گی تو بقول نصرت فتح علی خان مزا آ گیا۔

جس محلے میں ہے ہمارا گھر، اس کے بیشتر فلیٹوں میں ایک ہی قبیلے کی مختلف شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ خاندان کے بزرگان حقے پان سے اور جوان عقد ثانی سے شغف رکھتے ہیں۔ چور کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اس نے ایک شاعر کے ہاں چوری کو ممکن حد تک آسان پایا تو بچارے نارمل افراد کو بھی تر نوالہ سمجھ بیٹھا۔

ابھی پچھلی کارروائی کو ہفتہ مشکل سے گزرا ہوگا کہ وہ پھر آ موجود ہوا۔ البتہ اس بار موصوف نے وقت صخر دوپہر کی بجائے نصف شب بلکہ سحری کا چنا۔ ہھر کیا ہوا، کیا وہ پکڑا گیا، کیا اس بار اس کے ستارے گردش میں تھے یا نہیں تھے؟ یہ جاننے کے لیےآگے بڑھئیے، آگے پڑھئیے۔

کرنی نکاح ثانی کی یہ ہوئی کہ جب وہ شادی کی تیاری میں تھکی ہاری نیند کو پیاری فیملی کی ناک تلے سے مردانہ فون اور زنانہ پرس بہ یک جنبش دست اٹھا کے چمپت ہونے کو تھا کہ خاندان کے کسی ایسے فرد کی آنکھ کھل گئی جس کی پہلی شادی بھی ہو کے نہ دے رہی تھی۔

اب جو بہادری سے کپکپاتے ہوئے اس شیر دل شیہہ جوان نے چور کو دیکھ کے شور مچایا تو وہ چالاک اس پھرتی سے رفوچکر ہوا کہ اپنا ایک جوتا بھی پولیس کی رہنمائی کے لیے "وقوعے" پر ہی چھوڑ گیا۔

افسوس (کیسا افسوس!) فلموں والی ہیپی اینڈنگ کے برعکس یہ واردات موقع واردات پر ہی ختم نہیں ہوئی۔ چور میاں کو بلڈنگ سے فرار ہونے میں تو کسی این آر او کی ضرورت نہیں پڑی، باہر گلی میں نکلے تو ان کی مڈبھیڑ چند گناہگاروں کو چھوڑ کر علاقے کی باقی تمام نمائندہ سماجی شخصیات سے بیک وقت وبیک جگہ ہو گئی۔ ہائے، کیا کافکائی منظر رہا ہو گا، نہ ہوا کوئی بورخیس!

جن صالحین سے چور کا پالا پڑا وہ صبح کی نماز پڑھ کے مسجد سے چلے آ رہے تھے، ایک پا برہنہ شخص کو جو اس وقت اس طرح بھاگتے پایا تووہیں دھرلیا۔ آپ یہی سمجھیں کہ پالا مار لیا۔ ہم بھی یہی سمجھے تھے اور وہ بھی یہی سمجھے تھے۔ مگر چور ہمارا ٹھہرا عمرو عیار کا چیلا۔ جلیبی کی طرح سیدھے سادے لوگوں کے لیے وہ ٹیڑھی کھیر ثابت ہوا۔ اس نے الٹا ان پر چڑھائی کر دی کہ انہوں نے چور کو پکڑا کیوں نہیں۔

چور؟ کونسا چور، کیسا چور۔ وہی جو ابھی ابھی اس بلڈنگ میں چوری کرکے بھاگا ہے۔ تمہیں کیسے پتا چلا۔ میں نے دیکھا جو ہے اسے۔ اوہ اچھا بڑی بات ہے۔ بس جی کرم ہے اس ذات کا۔ بے شک آپ نے تو نہیں دیکھا اسے۔ نہیں۔ یہ تو بہت برا ہوا۔ بے شک۔ بے شک۔ لیکن تم اتنی تیزی سے کہاں جا رہے ہو؟ جی چور کے پیچھے اور اس طرح چور ہمارا رنگے ہاتھوں بچ نکلا۔

مصنف شاعر ہیں۔