پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کی گرفتاریاں، پی ٹی آئی کے کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن میں شدت، نئے قوانین کے ذریعے جلسے اور جلوس کے لیے دی جانے والی آئینی ضمانتوں پہ قدغن اور بلوچستان میں ہزاروں انسانی حقوق کے کارکنان، سیاسی ورکرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے جانے کے عمل سے ملک کے کئی حلقوں میں یہ خیال تقویت پاتا جا رہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان بدترین سیاسی جبر کی جانب بڑھ رہا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں کی طرف سے ملک کی صحافتی برادری کے خلاف انتہائی شرمناک زبان استعمال کی گئی جبکہ کچھ رہنماؤں نے ریاستی اداروں کے خلاف بدترین دشنام طرازی بھی کی جو انتہائی قابل مذمت ہے لیکن اس کے خلاف ردعمل بھی انتہائی جابرانہ تھا۔
اس ردعمل کی آڑ میں ناصرف قانون کی دھجیاں بکھیری گئیں بلکہ پارلیمنٹ کی بے توقیری بھی کی گئی۔ اسپیکر کی اجازت کے بغیر اراکین اسمبلی کو جانوروں کی طرح گھسیٹ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں کی طرف دھکیلا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین کو جس طرح ان کے دفتر میں گھس کر نامعلوم اور معلوم اہلکاروں نے گرفتار کیا اس سے بھی ملک کو جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔
ان تمام اقدامات سے لگتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن سیاسی رسوائی سے اپنے دامن کو بھرنا چاہتی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ نواز شریف کی جماعت نے ایسے ہتھکنڈوں کا سہارا لیا جو جمہوریت اور جمہوری اداروں پہ شب خون مارنے کے مترادف ہے بلکہ اس جماعت نے عوامی ووٹوں کی مدد سے اقتدار میں آنے کے بعد ہمیشہ عوام دشمن اقدام ہی کیے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی پہلی حکومت نے بدترین انداز میں اداروں کی نجکاری کر کے ہزاروں مزدوروں کو بے روزگار کیا اور انہیں اونے پونے داموں بیچا۔ کراچی میں فوجی آپریشن شروع کیا اور دائیں بازو کی انتہا پسند قوتوں کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں سیاسی کارکنان کے لیے زمین تنگ کی گئی۔ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن جاری رکھا گیا، پی پی پی کے خلاف مقدمات کے انبار لگائے گئے اور شریعت بل کے نام پر نواز شریف نے امیر المومنین بننے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے وہ سیاسی طور پر تنہا ہوئے اور جنرل مشرف کو ان کا تختہ الٹنے میں آسانی ہوئی۔
2008 میں جب مسلم لیگ ن پنجاب میں برسر اقتدار آئی، تو شہباز شریف نے علی الاعلان طالبان سے پنجاب پر حملے نہ کرنے کی درخواست کی اور فرقہ وارانہ قوتوں سے سیاسی اتحاد کیا۔
شہباز شریف نے میثاق جمہوریت کو کمزور کرنے کی بھیانک کوشش کی اور آصف علی زرداری کے خلاف انتہائی ناشائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے انہیں سٹرکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کیا۔
نواز شریف صاحب نے کالا کوٹ پہن کر جمہوریت کے منہ پر کالک ملنے کی کوشش کی اور جی ایچ کیو کے ساتھ مل کر پی پی پی کی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
مسلم لیگ ن سیاسی مخالفت میں اس حد تک چلی گئی کہ اس نے سابق گورنر سلمان تاثیر کے خلاف ایک ایسا سیاسی محاذ کھولا جس کے نتائج آگے جا کر انتہائی خطرناک ثابت ہوئے۔
امید کی جا رہی تھی کہ 2013 میں آنے والی ن لیگ کی حکومت ماضی سے کچھ سیکھے گی لیکن اس دور حکومت میں بھی آصف علی زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی تقریر کے بعد، نادیدہ قوتوں کے ساتھ ہاتھ ملایا گیا۔ چوہدری نثار نے سول سوسائٹی کی تنظیموں کا گلا گھونٹا اور پیکا قوانین کے ذریعے صحافی برادری کو جنرل ضیاء کے دور کی یاد دلائی گئی۔ یہ قوانین ناصرف سیاسی کارکنان کے لیے زہر قاتل ثابت ہو رہے ہیں بلکہ اس کی وجہ سے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے لیے بھی شدید دشواریاں پیدا ہو چکی ہیں۔
ن لیگ پر اس تنقید کا یہ مقصد بالکل نہیں کہ دوسری سیاسی جماعتیں دودھ اور شہد کی نہریں بنانے کی کوششیں کر رہی تھیں بلکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ 2008 سے 13 کے درمیان رہنے والی پی پی کی حکومت نے بھی پنجاب میں منتخب سیاسی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی اور اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کر کے عدلیہ کی آزادی کو بھی محدود کرنے کی سازشیں کیں۔
بالکل اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے بھی آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے کے لیے خطرناک قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی جبکہ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں نے خفیہ اداروں کی طرف سے شہریوں کی فون کالز سننے کے عمل کو جائز قرار دیا۔ اس کے علاوہ جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع اور تمغہ جمہوریت سے بھی نوازا، جبکہ سویلین اداروں کو فوجی افسران سے بھر دیا۔
تاہم چونکہ ن لیگ کی پیپلز پارٹی کی طرح جمہوریت کے لیے ایک جدوجہد رہی ہے، اس لیے اس کے رویے زیادہ تنقید کی زد میں آئیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ لڑائی بدترین مارشل لاء کے دور میں لڑی جبکہ ن لیگ نے یہ لڑائی جزوی مارشل لاؤں کے دوران لڑی جب جنرل مشرف برسر اقتدار تھے یا جنرل باجوہ اور فیض حمید کا طوطی بولتا تھا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ سویلین بالادستی کی بات کرنے والی ن لیگ آج جی ایچ کیو کے دروازے پہ سجدہ ریز ہے اور شہباز شریف ن لیگ کا وہی حشر کرنے جا رہے ہیں جو گوربا چوف نے سوویت یونین کا کیا تھا۔ انہوں نے کئی اہم عہدوں پر فوجی افسران کو متعین کر دیا ہے۔ میڈیا پر بدترین قدغنیں لگائی ہیں۔ ان کے وزیر داخلہ محسن نقوی کے لب و لہجے سے لگتا ہے کہ وہ کسی جمہوری حکومت کے وزیر داخلہ نہیں بلکہ کسی فوجی آمر کے مشیر ہیں جو وفاق کی ایک اہم اکائی کو لشکر کشی کی علی الاعلان دھمکیاں دے رہے ہیں اور ایسے سیاسی کارکنان اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو فورتھ شیڈول میں ڈال رہے ہیں جو اب بھی بلوچستان کے مسئلے کو آئینی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی عدالتوں، میڈیا اور دوسرے اداروں پر ہمیشہ سے نادیدہ قوتوں کا دباؤ رہا ہے لیکن جس جارحانہ انداز میں یہ دباؤ آج سامنے آ رہا ہے یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ن لیگ اپنے دامن میں سیاسی رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں سیمٹنا چاہتی۔ اس کے اس طرز عمل سے ناصرف سیاسی جماعتوں کو نقصان ہوگا بلکہ آنے والے وقتوں میں یہ جمہوری نظام کی بربادی کا موجب بھی بن سکتا ہے۔