'عمران پروجیکٹ' کے حامی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد ایک اور سینیئر جج کے خلاف متحرک

'عمران پروجیکٹ' کے حامی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد ایک اور سینیئر جج کے خلاف متحرک
سپریم کورٹ کے حکم پر سٹیٹ بینک کی جانب سے براہ راست الیکشن کمیشن کو پنجاب میں انتخابات کیلئے 21 ارب روپے جاری ہو جانے کے باوجود الیکشن نہیں ہوں گے اور 'عمران پروجیکٹ' کے حامی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد ایک اور سینیئر جج کے خلاف متحرک ہو گئے ہیں۔ یہ دعویٰ کیا ہے صحافی اسد علی طور نے۔

یوٹیوب پر اپنے حالیہ وی-لاگ میں سپریم کورٹ میں آج کی سماعت کا احوال سناتے ہوئے اسد طور نے کہا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ کی اِن چیمبر سماعت کے دوران سیکرٹری وزارت خزانہ، قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک سمعیہ کامل اور اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوئے۔

ان کے علاوہ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک عنایت حسین چوہدری، ڈائریکٹر سٹیٹ بینک قدیر بخش، پروٹوکول آفیسر سٹیٹ بینک محسن افضال، سیکرٹری الیکشن کمیشن، ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن اور ڈی جی لاء الیکشن کمیشن بھی سماعت کے لیے موجود تھے تاہم ان تمام افراد کو چیمبر سے باہر بھیج دیا گیا۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت انتخابات کے لیے فنڈز کے اجراء میں بے بس ہے۔ پارلیمنٹ نے حکومت کو فنڈز جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں دیا تو فنڈز کیسے جاری کریں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے 4 اپریل کے حکم پر عمل درآمد کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز سے رقم کے لیے بل پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ پارلیمنٹ نے انتخابات کے لیے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈزکے اجرا کے بل کو مسترد کر دیا۔ پارلیمنٹ سے بل مسترد ہونے کے بعد حکومت سٹیٹ بینک کو فنڈز کے اجراء کا نہیں کہہ سکتی۔

مختصر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک سمعیہ کامل کو حکم دیا کہ سٹیٹ بینک 21 ارب روپے براہ راست الیکشن کمیشن کو جاری کرے۔ آپ کو حکومت کی سننے کی ضرورت نہیں، عدالت کا حکم ماننا پڑے گا اور پیر تک 21 ارب روپے جاری کرنے کے حوالے سے رپورٹ جاری کریں۔

صحافی نے کہا کہ اگر کسی صورت یہ 21 ارب روپے جاری ہو بھی جائیں اس کے باوجود بھی انتخابات نہیں ہوں گے۔ آج قومی اسمبلی میں ہونے والے اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم شرکت کریں گے اور ملک میں موجودہ سکیورٹی صورت حال اور قومی سلامتی کی جانب سے منظور شدہ فورسز کے جاری آپریشنز کے حوالے سے بریفنگ دیں گے۔ پارلیمان کو تمام حقائق سے آگاہ کیا جائے گا۔ افغانستان میں کیا حالات ہیں؟ کتنے آپریشنز جاری ہیں؟ کیا آپشنز موجود ہیں؟ کن علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن ہوگا؟ ان آپریشنز میں کتنے سکیورٹی فورسز اہلکار استعمال کیے جائیں گے؟ کتنا بجٹ درکار ہوگا؟ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کے لیے 3 لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کا مطالبہ کیا ہے۔ اس بریفنگ کے بعد بتایا جائے گا کہ فوج آپریشنز میں مصروف ہے جبکہ رینجرز اندرونی سکیورٹی کے معاملات میں مصروف ہے۔ ایف سی اہلکار بھی اہم جگہوں پر تعینات ہیں۔ پولیس کی جانب سے بھی کچے کے علاقے میں جاری آپریشنز میں معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ اس لیے انتخابات کے لیے سکیورٹی اہلکار دستیاب نہیں ہیں۔

جس طرح سپریم کورٹ نے 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیا ہے، کیا اب سیکرٹری دفاع کو بھی ایسا ہی آرڈر جاری کیا جائے گا کہ آپ سکیورٹی کے لیے ڈائریکٹ الیکشن کمیشن کو فوجی اہلکار فراہم کریں یا آرمی چیف کو طلب کر کے 3 لاکھ فوجی اہلکاروں کا مطالبہ کیا جائے گا؟

فوج کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکے گی تو 21 ارب جاری ہونے کے باوجود انتخابات نہیں ہوں گے اور ان 21 ارب کی وہی حیثیت ہو گی جو دیامیر بھاشا ڈیم کے 15 ارب روپے کے فنڈز کی ہے۔ جب اکتوبر میں الیکشن ہوں گے تو ان فنڈز کا استعمال ہو جائے گا۔

اسد طور نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے اندر کی صورت حال خاصی تشویش ناک ہے۔ سپریم کورٹ میں جاری لڑائی اپنے بدترین انجام کو پہنچنے والی ہے۔ ایک اور انتہائی اہم جج ہیں جسٹس سردار طارق مسعود جو سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر ترین جج ہیں۔ جسٹس طارق سپریم کورٹ کے دو انتہائی اہم فورمز کے اہم رکن ہیں۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان، جہاں پر ہائی کورٹس میں جج صاحبان کی تعیناتی اور ترقیوں، سپریم کورٹ میں جج صاحبان کی ترقیوں کا فیصلہ ہوتا ہے اور ان کا ووٹ بہت مضبوط پوزیشن رکھتا ہے۔ جب سے جسٹس طارق اس کمیشن کے ممبر بنے ہیں انہوں نے قواعد کے خلاف جونیئر ججز کی ایلیویشن کی بھرپور مخالفت کی ہے اور چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے من پسند جج صاحبان کی ایلیویشن کی مخالفت کی۔

اس کے علاوہ یہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے بھی اہم رکن ہیں جو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کو ہٹانے کا فورم ہے اور اسی فورم سے چیف الیکشن کمشنر اور چیئرمین نیب کو بھی ہٹایا جا سکتا ہے۔ یہ باڈی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہے جس کے تین رکن ہیں؛ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود۔ اگر چیف جسٹس کے من پسند ججز کے خلاف کوئی ریفرنس دائر ہو گا تو ان فورمز پر آئین پسند ججز کو اکثریت حاصل ہے۔

اگر ان آئین پسند ججز کو کمزور کرنا ہے تو صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تک ہی محدود نہیں، پھر جسٹس سردار طارق مسعود کو بھی دیکھنا ہو گا ورنہ 'پروجیکٹ عمران' پوری طرح نہیں چلے گا اور فیض حمید دوبارہ سے ڈی جی آئی ایس آئی نہیں بن سکیں گے۔ اگر بن بھی گئے تو مطلوبہ ٹاسک انجام نہیں دے سکیں گے۔

عدالتی شخصیات جن میں سے ایک پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ مبینہ طور پر ان کا کچا چٹھہ سامنے آ چکا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھجوانے والی بھی وہی شخصیت تھی۔ انہوں نے اپنے ایک بڑے کے حکم پر جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف کیس بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان کے دائیں بائیں بیٹھنے والے وکلا اور دیگر سہولت کاروں کی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ جسٹس طارق کے خلاف کوئی معلومات نکالیں یا پیسے ادا کر کے کوئی جعلی ثبوت کھڑا کر دیں جن کی بنیاد پر کیس بن سکے۔

اس طرح ملک میں جوڈیشل سیاست چل رہی ہے۔ بدنیتی پر مبنی اسی طرح کے من گھڑت ریفرنسز بنانے سے سپریم کورٹ کو کچھ خاص حاصل نہیں ہو گا بلکہ اس کا اپنا چہرہ بے نقاب ہو جائے گا۔