'سیکولر جمہوریت کے بغیر پاکستان درست سمت میں آگے نہیں بڑھ سکتا'

پاکستانی ریاست نے سٹیٹ بلڈنگ کے پروسیس میں شروع سے اسلام کو مرکزی حیثیت دے دی جبکہ عوام کو نظرانداز کر دیا گیا۔ ریاست نے ابھی تک عوام کو مرکز میں نہیں رکھا، اسی لئے ہم ہر اعتبار سے دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔ عوام سے متعلق کسی انڈیکیٹر کو دیکھ لیں، ہماری حالت افسوس ناک ہے۔ ہمیں ڈنمارک اور ناروے بنانے کے خواب نہ دکھائیں، ہمیں بنگلہ دیش اور سری لنکا بنائیں۔

'سیکولر جمہوریت کے بغیر پاکستان درست سمت میں آگے نہیں بڑھ سکتا'

پاکستان میں اب جمہوریت کو غیر سیکولر روایات کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب ہمیں سیکولر پاکستان کی بات کرنی چاہئیے، سیکولر جمہوریت کے بغیر پاکستان درست سمت میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست کی تقریر اکیلی وجہ نہیں، ہمیں اس کے علاوہ بھی ملک کو سیکولر نظام دینا چاہئیے۔ جمہوری طور پر ہم کبھی بھی ترقی یافتہ پاکستان نہیں بنا سکتے اگر ہمسائیوں کے ساتھ یوں ہی لڑتے رہیں گے۔ یہ کہنا ہے تاریخ دان ڈاکٹر اشتیاق احمد کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ساری جینئس شروع سے مسلمانوں کو ہندوؤں سے الگ قوم ثابت کرنے میں لگی اور اسی بنیاد پر وہ پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ریاست مدینہ عمران خان کی ایجاد نہیں ہے، قائد اعظم نے 14 اگست 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سامنے کہا تھا کہ ہمارے ذہن میں ریاست مدینہ کا ماڈل ہے۔ قائد اعظم کے سامنے پاکستان کے آئین کا کوئی واضح نقشہ نہیں تھا اور اس کا اظہار انہوں نے خود کیا تھا۔ پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے قائد اعظم کو وزیر اعظم بننا چاہئیے تھا مگر انہوں نے گورنر جنرل بننے کو ترجیح دی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے 1935 کے انڈیا ایکٹ میں ترامیم کروا کر وہ اختیارات بھی لے لیے جو وائسرائے کو بھی حاصل نہیں تھے۔

پاکستان کی 55 فیصد آبادی پنجابی بولتی ہے، بیوروکریسی اور فوج میں اکثریت پنجابیوں کی ہے مگر آفیشلی آپ پنجابی نہیں بول سکتے۔ پاکستان بننے کے بعد کرپٹ پنجابی ایلیٹ نے اپنی ہی زبان پر پابندی لگا دی۔ پاکستان کی ایلیٹ دنیا کی کرپٹ ترین اور غیر ذمہ دار ترین ایلیٹ ہے جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

ضیغم خان نے اظہار خیال کیا کہ ایران اور افغانستان نے ماضی میں جس شدت سے خود کو ویسٹرنائز کرنے اور ماڈرن بنانے کی کوشش کی، اسی کے ردعمل میں اب یہ دونوں ملک بدترین تھیوکریسی سٹیٹس میں بدل چکے ہیں۔ پاکستانی ریاست نے سٹیٹ بلڈنگ کے پروسیس میں شروع سے اسلام کو مرکزی حیثیت دے دی جبکہ عوام کو نظرانداز کر دیا گیا۔ ریاست نے ابھی تک عوام کو مرکز میں نہیں رکھا، اسی لئے ہم ہر اعتبار سے دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔ عوام سے متعلق کسی انڈیکیٹر کو دیکھ لیں، ہماری حالت افسوس ناک ہے۔ ہمیں ڈنمارک اور ناروے بنانے کے خواب نہ دکھائیں، ہمیں بنگلہ دیش اور سری لنکا بنائیں۔

پاکستان کی ایلیٹ جو لبرل تھی اور ہے، اس نے بھی اپنا جواز قائم رکھنے کے لئے مذہب کا سہارا لیا۔ پاکستان کی ایلیٹ آپس میں کبھی بھی رولز آف دی گیمز نہ طے کر سکی جس کا نقصان ہوا۔ اس ایلیٹ کو عوام نے چیلنج کیا، عوامی نمائندوں نے بھی اور فوج نے بھی۔ پھر ایک طبقہ سٹیٹ ایلیٹ کا بنا۔ ایلیٹ کا تیسرا طبقہ ایسا سرمایہ دار ہے جو ریاست کے ساتھ تعلق اور گٹھ جوڑ سے سرمایہ بناتا ہے۔ یہ ایلیٹ اب پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ انہوں نے شوگر ملیں لگا لی ہیں، ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا لی ہیں۔ ایلیٹ کے اس طبقے نے اشرافیہ کے تینوں گروہوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔

ڈاکٹر یعقوب بنگش کا کہنا تھا کہ جب تک ہم پاکستان کے اوائل دنوں کے تضادات کو حل نہیں کر لیتے، ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ قائد اعظم سے کچھ غلطیاں ہوئیں جنہیں ذہن میں رکھنا ہو گا، یہ نارمل بات ہے کیونکہ ضروری نہیں ملک کا بانی سینٹ ہو۔ 1951 کے بعد سیاسی لیڈرشپ بھی اپنا قانونی و آئینی جواز کھو چکی تھی کیونکہ یہ 1946 کے انتخابات میں منتخب ہو کر آئی تھی اور اب ان کی مدت ختم ہو چکی تھی۔ آئینی جواز کے حساب سے سیاسی لیڈرشپ ملٹری اور سول انتظامیہ جیسی ہو چکی تھی۔ قرارداد مقاصد سے ہی عوام کو مرکز سے ہٹانے کی کارروائی کا آغاز ہو گیا تھا۔

مرتضیٰ سولنگی کے مطابق تاریخ جہاں سے بھی شروع ہوئی وہ الگ معاملہ ہے مگر اب ہم حال میں رہ رہے ہیں۔ پاکستان جن بھی حالات میں بنا 1973 کے آئین میں اس نے طے کر لیا تھا کہ ملک کا نظام منتخب نمائندے چلائیں گے مگر کیا ہوا، محض 4 سال بعد 11 سال کا مارشل لاء لگ گیا۔ آزادی سے قبل ہم ہندوستان میں اس لئے نہیں رہنا چاہتے تھے کہ ایک مضبوط مرکز میں اکائیاں نظرانداز ہو جائیں گے مگر اب ہم وہی مضبوط مرکز والا سسٹم پاکستان میں لا چکے ہیں۔ یہاں اقتدار اور اختیار تمام چھوٹی لسانی، مذہبی اور ثقافتی اکائیوں تک پہنچانا ہمارے مسائل کا ایک حل ہے۔

یوم آزادی سے متعلق خصوصی پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔