پاکستان بار کونسل نے سوشل میڈیا کے نئے قوانین مسترد کرتے ہوئے حکومت سے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان بار کونسل کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر نئے سوشل میڈیا قوانین کا مقصد بڑے پیمانے پر سنسرشپ اور آزادی رائے پر پابندی ہے۔ پارلیمنٹ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں نئے قوانین کو مسترد کریں۔
پاکستان بار کونسل کی طرف سے جاری اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی سنسرشپ کے خلاف آواز بلند کریں، ظالمانہ قوانین کے خلاف سیاسی طاقتیں مزاحمت کریں، مبینہ طور پر نئے قوانین کا مقصد صحافیوں کی زبان بندی اور سنسرشپ ہے۔ صورتحال پر سخت تشویش ہے، پاکستان بار کونسل کا کہنا ہے کہ نئے قوانین اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر بنائے گئے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا قوانین بادی النظر میں آزادی رائے روکنے کے مترادف ہیں، سوشل میڈیا کے نئے منظور ہونے والے قوانین آئین کے آرٹیکل 14،19 اور 19A سے متصادم ہیں، نئے قوانین بین الاقومی قانون اور معاہدوں کے بھی خلاف ہیں۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے بنائے گئے نئے سوشل میڈیا قوانین کے حوالے سے رائے کا اظہار کرتے ہوئے سینئر صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے بنائے گئے قوانین کی آڑ میں اختلافی آوازوں کو بند کرنے کے قوی امکانات ہیں۔ اس بات کا اشارہ گل بخاری پر بنائے گئے مقدمے سے بھی ملتا ہے۔
عاصمہ شیرازی کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان کے میڈیا کو ریگولیشن کے نام پر پوری طرح سے کنٹرول کرنے کی جو کوششیں کی گئی ہیں، ان کا اثر اب سوشل میڈیا تک آ گیا ہے۔
معروف قانون دان یاسر لطیف ہمدانی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے قوانین بنانے کے لئے درست طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا گیا۔ یاسر ہمدانی کا کہنا ہے کہ یوٹیوب، ٹوئٹر اور فیس بک وغیرہ کبھی بھی یہاں رجسٹریشن نہیں کروائیں گے۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے قوانین میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن میں کوئی بین الاقوامی کمپنی نہیں پڑنا چاہے گی۔ اور اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ اگر یہ قوانین لاگو ہو جائیں تو یہ کمپنیاں اپنی سروسز پاکستان میں بند کر دیں۔ یاسر ہمدانی کے مطابق یہ قوانین، حکومت کے غلط فیصلوں میں سے ایک ہیں اور حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔