اَدھیڑ عمر اور باہمت ماما قدیر کا سفرِ جنیوا

اَدھیڑ عمر اور باہمت ماما قدیر کا سفرِ جنیوا
جب سے ہم ہوش کی دہلیز پہ پہنچے ہیں تبھی سے ہم بلوچ قومی جہدوجہد میں عبدالقدیر بلوچ کا نام سنتے آ رہے ہیں جنہیں عموماً احترام میں ماما قدیر کہا جاتا ہے۔

ماما کی داستان مجھے ایک پل بھی گاندھی، عبدالغفار خان اور نیلسن منڈیلا کی داستان سے الگ اور منفرد نہیں نظر آتی، چاہے اس کو کتنی ہی زنگ آلود بالٹی میں ڈبو کے گوندھا جائے۔

ماما کو کوئی فرد ایک دکاندار کے زاویے سے دیکھتا ہے جو کوئٹہ پریس کلب و کراچی پریس کلب کے باہر ہزاروں تصاویر پر مبنی دکان نما کیمپ سجائے بیٹھتے ہیں۔ مگر قریب سے دیکھیں تو یہاں بیٹھ کے وہ صرف روتا ہے، سسکیاں بھرتا ہے، انصاف چاہتا ہے یا کسی تیسرے فرد کی رہائی چاہتا ہے جو زندان میں ہے اور جو کسی ماں، باپ، خاندان یا دوستوں کے سامنے جبری طور پر لاپتہ ہو چکا ہے۔

ماما کی دکان میں تصاویر کم ہونے کے بجائے بڑھتی رہتی ہیں لیکن اسے ماما کی شان سمجھا جائے یا بلند حوصلہ کہ نا کبھی گھبرائے، نا منافق نکلے، نا کسی کو گالیاں دیں اور نا ہی حاکمِ وقت کو کبھی بددعا بھیجی۔

ماما کی زبان سے خاصے مضبوط لہجے میں ایک شبد بار بار نکلتا رہتا ہے اور وہ ہے 'انصاف'۔

اسی تسلسل میں ماما کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ بھی کر چکے ہیں۔ اسلام آباد میں حاکمِ وقت عمران خان کے دربار میں بھی ان کی حاضری لگ چکی ہے۔ عمرانی حکومت کے دوران اپوزیشن تک سے جب کوئی رہنما کوئٹہ آتا تھا تو ماما کی تصاویر کی دکان میں حاضری لگوا کر یہاں لگی تصاویر کو کم کرنے یا اسی دکان کو بند کرنے کا کہتا تھا۔ حتی کہ رانا ثناء اللہ بطور وزیر داخلہ یہاں آتے تھے۔ لاپتہ افراد کمیشن اختر مینگل کی سربراہی میں بنا جس کے نتائج ہنوذ بذات خود لاپتہ ہیں لیکن ابھی چونکہ موسم سرے سے تبدیل ہو چکا ہے اس لئے اسلام آباد میں ماما کو بھلایا جا چکا ہے۔

لیکن یہ ایک ہی ماما ہے جو دکھ، آنسو اور درد و کرب کبھی نہیں بولتا۔ اب ان کا اعلان سماعت ہوا کہ میں جنیوا جا رہا ہوں اور لانگ مارچ کی شکل میں جا رہا ہوں۔

ایک امید ہے جو ماما کو بار بار حوصلہ مند کرتی رہتی ہے۔ چلیں ایک بار انگریز کی انسانیت اور انسانی حقوق کے اداروں کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ان کی عینک دیکھ لیتے ہیں کہ کتنی دور تک دیکھتی ہے اور ماما ان کو نظر آتا ہے یا نہیں۔

ایک بات تو طے ہے کہ ماما کو کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، ماما اس مادے کو دیکھتا ہے جس کا وجود ہے ہی نہیں اور وہ ہے انسانی درد۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔