پاکستان کا کوچ چاروں طرف سے کیسے گھرا؟

پاکستان کا کوچ چاروں طرف سے کیسے گھرا؟
مجھے وزیراعظم بننےکا شوق نہیں۔

میں یہ سب وزیراعظم بننے کے لیے نہیں کر رہا۔

یہ بیانات بہت دفعہ عمران خان نے اپنے جلسے دھرنوں میں دہرائے تھے، اور اپنے چاہنے والوں کو یقین دلایا تھا کہ میں وزیراعظم بنے بغیر بھی اس قوم کو مشکلات سے نکال سکتا ہوں۔ اور ایسا ہوا بھی۔

دھرنے میں عمران خان کے سخت بیانات نے نواز شریف کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ ہر مہینہ کبھی پٹرول سستا تو کبھی روز مرہ کی اشیا سستی ہو رہی تھیں۔ عمران خان کا اتنا پریشر تھا کہ نواز شریف بجلی پوری کرنے کو دن رات کام پر لگا ہوا تھا جبکہ عمران خان ایک کوچ کی حثیت سے پاکستان کے حکمرانوں سے کام لے رہا تھا۔ جہاں بھی نواز شریف نااہلی دکھاتا یا پھر ڈنڈی مارنے لگتا، کوچ پاکستان عمران خان فوری ایسا بیان دیتا کہ نواز شریف وہیں دبک جاتا۔

یہی سلسہ چل رہا تھا اور عمران خان نے یہ سوچ لیا تھا کہ کبھی بھی وزیر اعظم نہیں بننا بلکہ یونہی کوچ بن کر ان سب نلائقوں سے کام لینا ہے، جو کہ بذاتِ خود ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ مگر یہ قوم سمجھے تب نا۔



نواز شریف اس کوچ سے تنگ آ چکا تھا۔ نواز شریف کو آرام کا ٹائم بھی نہیں مل رہا تھا اور نہ ہی گھپلوں کا۔ دوسری طرف کوچ نے شہباز شریف کو بھی تگنی کا ناچ نچایا ہوا تھا۔ وہ کبھی کسی شہر تو کبھی کسی شہر میں شوبازیاں کر کے افتتاح کر رہا تھا۔

پھر ایک دن دونوں بھائی اور ساری جماعت تنگ آ کر سر جوڑ کر بیٹھ گئی۔ فیصلہ ہوا کہ اب بس۔ اب مزید اتنی سخت نگرانی میں کام نہیں ہو سکتا۔ ایسے ہم بھوکے مر جائیں گے۔ یکایک ایک صحافی جو کمرے میں ہی تھا اس نے شرلی چھوڑی کہ میرے پاس ایسا ایک پلان ہے کہ ہم سب اس سخت کوچ سے جان چھڑا سکتے ہیں بلکہ اس کو پھنسا بھی سکتے ہیں۔ سب صحافی کی طرف لالچی نظروں سے دیکھنا شروع ہو گئے۔

صحافی پہلے تو گھبرایا مگر پھر ہوش سنبھال کر بولا، اس پلان میں پہلے لیڈر شپ کو تکالیف برداشت کرنا ہوگی۔ مگر اس کے بعد سکھ ہی سکھ ہوگا اور یہ میری گارنٹی ہے۔ سب کی ہاں کے ساتھ صحافی نے اپنا سارا پلان سامنے رکھ دیا۔ پلان کے مطابق پانامہ کو ہوا دینی تھی۔ کوچ کی ساری توجہ یکایک اس کیس پر آنی تھی اور تبھی نواز لیگ کو پیچھے سے گیم ڈالنی تھی۔



اور پھر یہی ہوا۔ حکومت اپنی مرضی کرنے لگ گئی۔ کیونکہ کوچ پاکستان کو گھیر لیا گیا تھا۔ مہنگائی شروع ہو گئی، ڈالر آسمان سے باتیں کرنے لگا مگر کوچ کو پانامہ میں پھنسا دیا گیا تھا۔ ادھر یہی سب چل رہا تھا کہ لیڈرشپ کی قربانی کا ٹائم آ گیا۔ لیڈر شپ جیل پہنچ گئی۔ کوچ کو ایسا محسوس کروایا گیا کہ وہ جیت چکا ہے۔ مگر اصل میں کوچ پھنس گیا تھا کیونکہ ن لیگ عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کے لئے سب کچھ کروا رہی تھی۔ کیونکہ ن لیگ جانتی تھی عمران خان کوچ کی حثیت سے بہت خطرناک ہے۔

اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں ٹیم کو ایک کوچ کھلا رہا ہوتا ہے اور کھلاڑی کوچ کی ہدایات پر کھیل رہے ہوتے ہیں۔ مگر کوچ کبھی گراؤنڈ میں نہیں آتے۔ یہاں ن لیگ نے کوچ کو گراؤنڈ میں لا کھڑا کیا۔ پھر جیسے ہی کوچ خود کھلاڑی بنا تو ن لیگ نے عمران خان والی پوزیشن سنھبال لی کہ اصل کوچ ہم ہیں۔

اب عمران خان جو کوچ ہی رہنا چاہتے تھے اور کوچ رہ کر اس پورے ملک کو سنھبالنا چاہتے تھے برے طریقے سے پھنس گئے۔ اس سب میں عمران خان کا کوئی قصور نہیں۔ کیونکہ وہ کافی دفعہ یہ کہہ چکا تھا کہ مجھے وزیر اعظم بننےکا شوق نہیں۔ میں یہ سب وزیراعظم بننے کے لئے نہیں کر رہا۔ مگر ہائے قسمت!