Get Alerts

عمران خان صاحب! محمد بن قاسم بننے سے بہتر ہے ٹیپو سلطان بن جائیں

عمران خان صاحب! محمد بن قاسم بننے سے بہتر ہے ٹیپو سلطان بن جائیں
پرویز مشرف نے ریاست کو قبضے میں لے کر غیرآئینی حکومت بنا کر عوام کو کئی نان ایشوز کے گرد گمایا۔ غیرسیاسی ذہن سازی کے لئے روشن خیالی کے نام پر مراتھن ریس اور کئی ڈھکوسلے کئے گئے۔ مارشل لا کو جمہوریت کی چھتری میں چھپانے کے لئے ملک بھر سے ایم این ایز اور ایم پی ایز خرید کر اسمبلیاں تخلیق کیں۔ ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز کو وزیراعظم بھرتی کیا۔ ملکی مسائل حل کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ڈرامے بازیاں کر کے لوٹ کھسوٹ کا دھندہ جاری رکھا۔ وقت گزر گیا۔ پرویزمشرف طاقتور ہونے کے باوجود عبرت کا نشان بنے دربدر ہیں۔

عوام کی امنگوں سے کھیلنے والے اور فریب، دھوکہ دہی سے حکومت کرنے والوں کے ساتھ تاریخ بدترین سلوک کرتی ہے۔ عوام کو بے وقوف بنانے اور سمجھنے والوں کو تاریخ مار دیتی ہے۔ عوام کا اجتماعی شعور بخوبی سمجھتا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور افسانہ کیا ہے۔ تاریخ کا انمول سبق ہمارے سامنے ہے کہ اسلام کو ہتھیار بنا کر اقتدار کو طول دینے کی بیہودہ حرکت کا مرتکب مر گیا اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دینے والا بھٹو آج بھی زندہ ہے اور تاریخ کے افق پر ہمیشہ چمکتا دمکتا رہے گا۔ زندہ رہنا اسی کو کہتے ہیں۔

ترقی کا انحصار فکر پر ہوتا ہے۔ فکری ترقی سے معاشی و سماجی اور ملکی ترقی کی منازل طے ہوتی ہیں۔ ڈھکوسلوں سے ہرگز نہیں۔ تاریخ پھر دہرائی گئی ہے۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز پھر خریدے ہیں۔ جن کی اپنی زبان گنگ ہے۔ حکم کے غلام ہیں۔ پہلے وزیراعظم بھرتی کیا گیا تھا۔ اب کی بار تخلیق کردہ ریموٹ کنٹرول وزیر اعظم ہے۔ جس کی پہلے بھرپور مارکیٹنگ کی گئی اور برانڈ بنا کر قابل قبول بنایا اور مسلط کر دیا گیا ہے۔ خود تراشدہ اور مسلط کئے وزیراعظم سے پرانے کھیل کو نئے اور سابقہ کھلاڑیوں کے ذریعے کھیلا جا رہا ہے۔ وہی نان ایشوز، احتساب کے نعرے، کرپشن کا خاتمہ، زبانی کلامی ملکی ترقی کے دعوے اور عملی طور پر ملک کا وزیراعظم اور ریاست کا سربراہ مصیبت میں مبتلا عوام کو ڈرامے دیکھنے کی ہدایت کر رہا ہے۔

شاید انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے یا عوام شعور نہیں رکھتے ہیں۔ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے اور نہ ہی عوام شعور سے عاری ہیں۔لوگ بے دھڑک اظہار کر رہے ہیں۔ عوام کو معلوم ہے کہ وزیر اعظم بے بس ہے۔ لاچار ہے۔ ریموٹ کنٹرول ہے۔ وزرا وزیراعظم کے ساتھ نہیں ہیں۔ ایم این ایز وزیراعظم کی نہیں سنتے ہیں۔ عوام سب جانتے ہیں وزیراعظم کو چلایا جارہا ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ وزیراعظم کون چلا رہا ہے۔

عمران خان صاحب! ایوب خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف جیسے طاقتور ڈکٹیٹروں کے اقتدار کا سورج بھی ڈوب گیا۔ آپ تو تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ذرا غور فرمائیں ماضی کے ڈکٹیٹروں کو تاریخ کن الفاظ میں یاد کرتی ہے۔ تاریخ میں زندگی عوام کو حق دینے سے ملتی ہے۔ عساکر کی تابعداری سے ق لیگ بنتی ہے۔ تاریخ نہیں بنائی جا سکتی ہے۔

عمران خان صاحب! کوئی انتخابی وعدہ، کوئی دعوی پورا نہیں ہوسکا ہے بلکہ الٹا ملک مقروض ہوا ہے۔ غربت اور مہنگائی کی شرح بڑھی ہے۔ کرونا کے بحران میں آپ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنے میں عاجز نظر آتےہیں۔ بے بسی اور بچارگی عیاں ہے۔ اس بات سے آپ بھی باخبر ہیں اور آپ کے ٹائیگرز بھی جان چکے ہیں۔

عوام تو خیر بہت ہی جان چکے تھے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ یہ کہانی ہی جعلی اور دونمبر ہے۔ بھانڈہ بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے۔ عمران خان صاحب! محمد بن قاسم بننے سے بہتر ہے ٹیپو سلطان بن جائیں۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔