ہمارے صحافی، اور ’میرے ماموں کا بیٹا کامران‘

ہمارے صحافی، اور ’میرے ماموں کا بیٹا کامران‘
اب تو عادت سی ہو گئی ہے۔ صبح اٹھنے سے لے کر رات کو سونے تک اتنی خبریں پڑھ لی جاتی ہیں کہ خبروں، تبصروں، تجزیوں کے علاوہ کچھ دماغ میں آتا ہی نہیں۔ نقصان اس کا یہ ہوا ہے کہ جیسے ہی کوئی بات ہوتی ہے، اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کہاں سے آ رہی ہے۔ مثلاً اگر پرویز الٰہی کہہ رہے ہیں کہ انسانی ہمدردی کا نام لے رہے ہیں تو پھر ساتھ گارنٹی کی بات کہاں سے آ گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور اصل حکومت ایک صفحے پر نہیں۔



یہ بھی پڑھیے: نامور صحافیوں کا ایک ہی موضوع پر ٹویٹ کیا ثابت کرتا ہے؟







اس پر مہرِ تصدیق چودھری شجاعت حسین کے اس بیان سے ثبت ہو جاتی ہے کہ اگر یہی حالات رہے تو چھ مہینے بعد یہاں کوئی وزیر اعظم بننے کو تیار نہیں ہوگا۔

یہی حال صحافیوں کا ہے۔ آج صبح جب فریحہ ادریس نے ٹوئیٹ کیا کہ ’’سوالات اب پی ایم ایل این سے پوچھے جارہے ہیں۔ ہسپتال کے بستر سے کوئی مایوس مریض سودے بازی نہیں کرتا‘‘ تو کسی نے نیچے لکھا ہوا تھا کہ وٹس ایپ پر میسج موصول ہونے کے بعد سب کے سب ایک ہی بات ٹوئیٹ کرنے لگ گئے ہو۔ میں نے ایک منٹ نہیں لگایا، فوراً کچھ اکاؤنٹس کھول کر دیکھنا شروع کر دیے۔

https://twitter.com/Fereeha/status/1194910726684577792

وہی ہوا۔ کامران خان، خاور گھمن، رؤف کلاسرا، صابر شاکر صاحب کا ’فین‘ اکاؤنٹ، عارف حمید بھٹی صاحب کا بیپر، سب ایک ہی پیغام دے رہے تھے۔ کہ سیاست نون لیگ کر رہی ہے، بانڈ بھریں اور جائیں۔ یہ سب ’سینیئر‘ صحافی ہیں۔ کچھ لوگ نہ بھی مانیں کہ صحافی ہیں، میں بحث نہیں کروں گا۔ کیا انہیں اتنا بھی نہیں پتہ ہوگا کہ یہ اس کام کی حمایت کر رہے ہیں جس کی قانونی حیثیت تک مشکوک ہے ۔۔۔ اور بہت سے لوگوں نے تو یہ تک کہا ہے کہ یہ بھتہ خوری اور تاوان کے زمرے میں آتا ہے۔

https://twitter.com/AajKamranKhan/status/1194894491423059968

https://twitter.com/Ghummans/status/1194884654496649216

https://twitter.com/KlasraRauf/status/1194911179258449920

اچھا، چلیں چھوڑیں۔ گولی ماریں صحافتی ذمہ داری وغیرہ کو۔ نوکر کی تے نخرہ کی۔ لیکن کم از کم یہ تو سوچ لینا چاہیے کہ ’رپورٹنگ کی دنیا میں میرے 25 سال‘ ہیں۔ بلکہ اب تو زیادہ ہو گئے ہیں۔ کم از کم یہ کاپی پیسٹ والے کام اب تو مجھے نہیں کرنے چاہئیں۔ لیکن نہیں۔۔

اتنے تجربہ کار لوگوں کو خود پتہ ہوتا ہے کہ ان کے اور ایک ٹرول کے لیول میں کوئی فرق ہونا چاہیے۔ اور اگر کوئی ادارتی پالیسی ہے تو اس قدر مماثلت اچنبھے کی بات ہے۔ اس سطح پر ’ماموں کے بیٹے کامران‘ لیول کی حرکتیں کیا انہیں زیب دیتی ہیں؟

https://twitter.com/TalatHussain12/status/1194597881333895169

گذارش ہے، مشورہ نہیں، تھوڑا innovation لائیں اس کام میں۔ گوئبلز کے دور کا پراپیگنڈا اب نہیں چلتا۔ کچھ سیکھیں روس سے، امریکہ سے۔ پراپیگنڈا اب بہت آگے نکل چکا ہے۔ آپ جس چیز کو پانچویں پشت سمجھ رہے ہیں، وہ پراپیگنڈا کی primitive ترین ہئیت ہے۔ آگے بڑھیں۔ باہر نکلیں وٹس ایپ سے۔ بہت predictable ہو گئے ہیں آپ۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.