اختیارات کا ناجائز استعمال،  سپریم کورٹ کا فیض حمید کیخلاف درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ جاری 

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کی جانب سے سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں جو اگر ثابت ہوئے تو مسلح افواج، آئی ایس آئی ، رینجرز اور وفاقی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ سنجیدہ الزامات ہونے کے باعث انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اختیارات کا ناجائز استعمال،  سپریم کورٹ کا فیض حمید کیخلاف درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ جاری 

سپریم کورٹ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کیس کی درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ جاری  کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ فیض حمید کے خلاف الزامات سنگین ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار معیز احمد نے فیض حمید کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کی درخواست دائر کی تھی۔ درخواست گزار نے فیض حمید پر سنگین الزامات عائد کئے۔ فیض حمید پر درخواست گزار کے آفس اور گھر پر چھاپے کا الزام ہے۔ درخواست گزار کے مطابق ان کے اہلخانہ کو غیرقانونی تحویل میں رکھا گیا۔ فیض حمید کے کہنے پر ان کا قیمتی اور دفتری سامان لوٹا گیا۔

 درخواستگزار کے مطابق فیض حمید نے ان کے اور اہلخانہ کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق درخواست گزار وزارت دفاع سے رجوع کر سکتے ہیں۔عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گزار کے پاس وزارت دفاع سمیت دیگر  دوسرے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔ درخواست گزار کے الزامات پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔  

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کی جانب سے سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں جو اگر ثابت ہوئے تو مسلح افواج، آئی ایس آئی ، رینجرز اور وفاقی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ سنجیدہ الزامات ہونے کے باعث انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دائر کی گئی درخواست آرٹیکل 184 کی شق 3 کے مقابلے میں مختلف نوعیت کی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے حکم نامے میں کہا کہ  درخواست گزار کے پاس دیگر فورمز بھی موجود ہیں۔ سپریم کورٹ نے براہ راست آرٹیکل 184 کی شق 3 کا استعمال کیا تو دوسرے فریقین کے حقوق متاثر ہوں گے۔

درخواست گزار کے خدشات ہیں کہ اس کی درخواست پر وزارت دفاع کارروائی نہیں کرے گی۔ درخواست گزار نے کہا جن پر الزامات ہیں وہ اہم عہدوں پر فائز رہے۔

حکم نامے کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ شکایت کنندہ کی درخواست پر کارروائی کی جائے گی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی وفاقی حکومت کی جانب سے سے دیے گئے مؤقف پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر درخواست گزار وزارت دفاع سے رجوع کرے تو قانون کے مطابق شکایت کا جائزہ لیا جائے۔

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/3کے معیار پر پورا نہ اترنے پر فیض حمید کے خلاف درخواست نمٹا دی۔

عدالت نے کہاکہ درخواست گزار کے پاس فیض حمید سمیت دیگر فریقین کے خلاف دوسرے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواستیں نمٹاتی ہے۔

اس کے علاوہ جسٹس اطہر من اللہ کا  2 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ  بھی حکم نامے میں شامل کیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ  نے نوٹ میں کہا کہ سپریم کورٹ میں ایچ آر سیل 2005سے کام کر رہا ہے۔ دوران سماعت بتایا گیا سپریم کورٹ میں قائم کردہ انسانی حقوق سیل قانون کے مطابق نہیں۔

اضافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ عدالت کو بتایا گیا چیف جسٹس کی جانب سے چیمبر میں دیے گئے احکامات، اقدامات بھی کسی قانون کے مطابق نہیں۔ سپریم کورٹ کے انسانی حقوق کے جاری کردہ خطوط سے عدالتی احکامات ہونے کا غلط تاثر پیدا ہوتا ہے۔  بتایا گیا کہ چیف جسٹس کی جانب سے فریقین کو چیمبر یا میٹنگ روم میں بلانا شفاف ٹرائل کے منافی ہے۔