تنقید سے پرہیز

تنقید سے پرہیز
ہم بہت کچھ بولنا جانتے ہیں اور شاید کئی دن سے بولنا چاہتے ہوں مگر کہاں بولیں اور کیسے بولیں؟ یہ ڈر سروں پر سوار ہوتا ہے کیونکہ ہم کون ہیں؟ کیا حیثیت ہے؟ وغیرہ جیسے خوفناک جملے سینگ اٹھا کر سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اگر میں ایک طالب علم ہوں، تو ایک طالب علم کیسے بول سکتا ہے؟ گھر میں اس سے متعلق فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اسے کیا بننا چاہیے اور کیا نہیں، تعلیمی اداروں میں اسے سکھایا بلکہ ڈرایا جاتا ہے کہ بولنے کے نقصانات رزلٹ کارڈ پر کیسے اثر ڈالتے ہیں اور باہر کا معاشرہ تو الحمداللہ اس قدر روادار ہے کہ لوگ فتوے، سرٹیفکیٹ، گستاخ اور غدار کے القابات جیبوں میں لیے پھر رہے ہوتے ہیں۔

ہم چونکہ روایت کے پابند لوگ ہیں بڑوں کا احترام کرتے ہیں اس لیے ووٹ مانگنے آئے سیاستدان سے اس کی کارکردگی پر ہرگز سوال نہیں اٹھا سکتے، کیونکہ اس سے مہمان کی گستاخی ہوگی۔ ہم اداروں سے جواب طلبی نہیں کرسکتے کیونکہ ہم تو بس تھوڑا بہت ٹیکس ہی ادا کرتے ہیں جس سے ان کو تنخواہیں ملتی ہیں۔ ان سے دشمن کے ایجنٹ اور غداروں کے علاوہ کوئی اور سوال کرے بھی تو کیوں؟ ہم مولوی، ملا یا قاری صاحب سے کیا سوال پوچھ سکتے ہیں؟ ہم کون سا ان کی طرح دنیا سے ہٹ کر خدا کی خوشنودی کے لیے کوئی نیک کام سرانجام دے رہے ہیں؟ اور تو اور ہم طالب علم ایک دوسرے سے بھی سوال نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے گروپنگ بن سکتی ہے، لڑائی ہوسکتی ہے، فساد کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، اور بھی بہت کچھ برا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ، سوال تنقید کو جنم دیتا ہے اور تنقید نفرت، دشمنی اور فساد کی جڑ ہے۔

تنقید سے برائیاں ظاہر ہوجاتی ہیں، خامیاں نمایاں ہوتی ہیں، انا کا مسئلہ ابھر سکتا ہے، تشخص داغدار ہوسکتا ہے، دودھ اور پانی الگ ہوسکتا ہے، بلکہ بندہ سارا کا سارا کھلی کتاب کی طرح کھل جاتا ہے۔ اگر غلطیاں، برائیاں، خامیاں، انا کا مسئلہ اور تشخص کا داغدار ہونا وغیرہ سب چھپانے کی چیزیں ہیں تو ان پر بات کیوں کی جائے؟ آخر تھوڑے بہت جھوٹ، تھوڑی سی کرپشن اور کچھ غلطیاں کرنے سے کیا بدلتا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں۔

تنقید لفظ مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر اس قدر خطرناک، اور بدشکل بن چکا ہے کہ اب اس کا استعمال صرف ڈکشنری کی حد تک صحیح ہے ورنہ ناقابل برداشت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 'مشالوں' کے قتل میں اضافہ، کرپشن کی بیماری عام اور طاقت کا استعمال ضرورت بن چکی ہے۔

معاشرہ ایک ایسی سمت گامزن ہے جہاں خوف کا راج قائم کرنا اور احساسات کا گلا گھونٹ کر روبوٹ بن کر جینا بہترین آپشن بنتا جارہا ہے۔ ایک دوسرے کی تعریف، ہر پوسٹ پر لائک، ہر جملے پر واہ واہ اور ہر زور آور کے سامنے یس سر، یس سر ضروری اور بے حد ضروری ہے۔ اپنی الگ رائے قائم رکھنا، اپنی بات بولنا اور تنقید کرنا ایک عمل بد ہے۔ تنقید قابل نفرت ہے، رشتوں میں دراڑ کی وجہ ہے اور گستاخی ہے۔ اس لیے اس سے جتنا پرہیز ممکن ہو کریں۔

ریسرچ کا عمل رُکتا ہے تو رکنے دیں، شک کی دیوار بنتی ہے بننے دیں، خود ساختہ جھوٹا اور فریبی معاشرہ بنتا ہے تو بننے دیں مگر تنقید نہ کریں، کیونکہ تنقید تو قابل نفرت عمل ہے، اس سے بھلا محبت کیسے ہو۔

یہ تنقید اس قدر خوفناک شے ہے کہ اس سے  بچنے کے لیے ہر حکومتِ وقت قلم اور صحافت کو پہلے تو خریدنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے اگر اس میں کامیابی نہ ملے تو جبری پابندیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ہر مذہبی ٹھیکیدار اپنی دکانداری اور کاروبار کے نقصان کا سوچ کر اپنے عقیدت مندوں کو ورغلا کر یا ڈرا کر اس سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

یہ سب محض تنقید سے بچنے کے طریقہ کار ہیں، کیونکہ تنقید کے لیے سوال اٹھانا اور سوچنا پڑتا ہے جس کے لیے مطالعہ کرنا پڑتا ہے، عقل سلیم کو استعمال کرنا پڑتا ہے اور انسان ہونے کی عملی ثبوت دینا پڑتا۔ پھر روبوٹس کی فیکٹری، اندھا دھند فالونگ اور جیالوں کی پیدائش ختم ہوسکتی ہے جو کہ نقصان دہ ہے۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔