عمران خان کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے الیکشن سے نااہل کر دیا گیا ہے۔ یہ کوئی ایسا اچانک فیصلہ نہیں ہے کہ جس پہ حیران ہوا جائے۔ جناب زلفی بخاری کی طرف سے جو کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے تھے، اور ان کے ساتھ منسلک کی گئی دس سالہ منشور کی دستاویز کے مندرجات سے محسوس کیا جا سکتا تھا کہ یہ درخواست مسترد کر دی جائے گی۔
یہاں یاد رہنا چاہیے کہ کسی بھی برطانوی یونیورسٹی کی چانسلرشپ کے الیکشن لڑنے کے لئے ہر امیدوار کو ایک منشور بھی جمع کرانا ہوتا ہے۔ انگریزی زبان میں تحریر کردہ اس مُسَجَّع و مُقَفّٰی منشوری دستاویز میں ہر امیدوار اپنے مستقبل کے فینسی منصوبوں، ان کی افادیت اور یونیورسٹی کی ترقی کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کو بیان کرتا ہے اور اپنے ووٹرز کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 2024 کے الیکشن میں جو 38 امیدوار (بشمول 5 پاکستانی امیدوار) حصہ لے رہے ہیں ان کے منشور یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ عمران خان کے منشور میں کچھ ایسے نقاط شامل تھے کہ جن سے واضح تھا کہ ان کی درخواست سند قبولیت نہیں پا سکے گی۔ تو وہ ایسے کون سے نقاط تھے کہ جو ناقابلِ قبول تھے؟ ان کی تفصیل و تاویل درج ذیل ہے:
1۔ سالانہ 5 ہزار پاکستانی طلبہ کو آکسفورڈ کی ڈگریاں جاری کرنا
یہ قانون موجود ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر جس ملک سے ہو، یونیورسٹی اس ملک کے کم ازکم 5 ہزار طلبہ کو سالانہ اعزازی ڈگریاں جاری کرتی ہے جو کہ چانسلر کی طرف سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق دی جاتی ہیں۔ اگر عمران خان چانسلر بن جاتے تو صرف دس سالوں میں پاکستان میں 50 ہزار آکسفورڈ گریجویٹ ہو جاتے (اس وقت یہ تعداد کوئی 1200 کے لگ بھگ ہے)۔ بہترین ترقی کا یہ اختیار عمران خان جیسے عوامی و اسلامی لیڈر کو دینا ایک خطرناک بات تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی، ایک ایسے ملک کو کہ جو اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہو، اتنے سارے گریجویٹ دینے پر راضی نہیں ہو سکتی تھی۔
2۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا اگلا چانسلر بھی پاکستانی ہوتا
برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس (MI-6) کی طرف سے آکسفورڈ یونیورسٹی کو ایک خفیہ رپورٹ جمع کرائی گئی جس میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ عمران خان کے چانسلر بننے کے بعد یہ عہدہ ہمیشہ کے لئے پاکستان کے پاس چلا جائے گا۔ اور خان کی دس سالہ ٹرم کے بعد اگلا ممکنہ چانسلر عثمان بزدار ہو گا۔ اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو اس رپورٹ کے خدشات کچھ اتنے غیر حقیقی بھی نہیں ہیں۔ مثلاً گذشتہ ماہ کئی ملکی و غیر ملکی افراد نے ڈیرہ غازی خان کے تواتر سے دورے کیے ہیں۔ ان مختلف قسمی دوروں میں جو ایک بات متفقہ تھی وہ یہ کہ سب وزٹرز نے سردار عثمان بزدار سے تنہائی میں ملاقاتیں کیں اور ان ملاقاتوں کو کوئی اعلامیہ جاری نہ کیا گیا۔
3۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پہلے غیر ملکی کیمپس کا قیام
عمران خان کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ اپنی چانسلرشپ کے دوران آکسفورڈ یونیورسٹی کا پہلا انٹرنیشنل کیمپس قائم کیا جائے گا۔ اور انتہائی باوثوق ذرائع (ملکی و غیر ملکی) سے معلومات ملیں کہ یہ ممکنہ کیمپس پاکستان میں اور ڈیرہ غازی خان میں قائم کیا جائے گا۔ اپنے منفرد جغرافیہ کی وجہ سے آکسفورڈ یونیورسٹی کا یہ مجوزہ کیمپس افغانستان کے طالب علموں کو بائی روڈ مسافت پر پڑتا۔ اور پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی آکسفورڈ گریجویٹس کی ایک وسیع تعداد میسر آ سکتی تھی۔ یہ بات مغربی طاقتوں کے لئے ناقابلِ قبول تھی۔
یہ وہ بنیادی وجوہات تھیں جن کی بنا پر عمران خان کی درخواست مسترد کی گئی۔ خان صاحب کی درخواست مسترد ہو گئی، یہ واقعہ کا ایک پہلو ہے جبکہ اس کا دوسرا اور تاریک پہلو یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی جیسے معزز ادارے نے اپنے وقار اور کریڈبیلٹی کا سودا کیا اور عالم اسلام کے ایک متفقہ لیڈر کو الیکشن لڑنے کے حق سے محروم کیا ہے۔ اس واقعے کے دو نتائج کی حدت یونیورسٹی آمدہ برسوں میں محسوس کرتی رہے گی۔ پہلا یہ کہ اب پاکستانی طلبہ کے لئے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لینا کوئی ایسا دلچسپ کام نہ ہو گا جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔ اور دوسرا یہ کہ اسلامی دنیا میں مغرب سے بیزاری زیادہ گہری ہو جائے گی اور وہ جمہوری مکھوٹہ تار تار ہو گا کہ جو مغربی ممالک نے اپنے چہرے پر چڑھا رکھا ہے۔