کیا سولین بالادستی کے نام پر جمہوری اقدار کے قتل کی حمایت کی جا سکتی ہے؟

کیا سولین بالادستی کے نام پر جمہوری اقدار کے قتل کی حمایت کی جا سکتی ہے؟
لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے بطور آئی ایس آئی ڈائریکٹر جنرل دو سال سے زائد عرصہ مکمل ہونے کے بعد یہ طے تھا کہ ان کو اب کور کمانڈر لگا کر کہیں بھیجا جائے گا۔ گذشتہ ہفتے بدھ کی شام یہ خبر آئی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس حوالے سے کوئی ابہام پایا جاتا ہے لیکن جمعرات کی شام یکایک اطلاعات آنے لگیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس سمری پر دستخط نہیں کیے ہیںاور شاید وہ کراچی کور کے موجودہ کمانڈر لیفٹننٹ جنرل ندیم احمد انجم کے نام سے متفق نہیں ہیں۔ یوں لگا جیسے یہ محض ایک افواہ تھی لیکن پھر جمعے کی صبح یہ واضح ہو گیا کہ ان اطلاعات میں صداقت موجود تھی اور واقعتاً وزیر اعظم صاحب اس سمری پر دستخط کرنے سے گریزاں تھے۔

اس کے بعد سے اب تک جو کچھ ہوا ہے، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ اس سے پہلے منگل کو کو مریم نواز نے ایون فیلڈ کیس میں اپیل دائر کی تھی کہ اس میں سزا کو ختم کیا جائے کیونکہ مرحوم جج ارشد ملک یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہیں ان کی ایک پرانی ویڈیو دکھا کر ان سے یہ فیصلہ لیا گیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی برملا اعلان کر چکے ہیں کہ اس وقت میجر جنرل فیض حمید نے عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ مریم نے اسی شام کچھ ٹؤئیٹس بھی کیں جن میں نام لے کر فیض حمید صاحب پر تنقید کی گئی۔ پھر بدھ کی دوپہر ایک پریس کانفرنس میں بھرپور انداز میں انہوں نے فیض حمید صاحب پر حملے کیے اور وہی الزامات دہرائے جو وہ اپنی درخواست میں لکھ چکی تھیں۔ انہوں نے انہیں کٹہرے میں لائے جانے کا بھی مطالبہ کیا۔

ٹھیک ایک ہفتے بعد ایک مرتبہ پھر وہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا وزیر اعظم عمران خان آئینی طور پر استحقاق رکھتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کا ISI چیف تعینات کریں؟ اور اگر فوج خود سے وزیر اعظم سے مشاورت کے بغیر کسی کو تعینات کر دے تو کیا یہ وزیر اعظم کے دفتر کو بائی پاس کر کے کیا جا رہا ہے؟ مریم نواز نے اس کے جواب میں واضح انداز میں کہا کہ نہ یہ آئینی اختیارات کے استعمال کا مسئلہ ہے، نہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کا مسئلہ ہے۔ یہ صرف اپنے اقتدار کو چند دن کی اور مہلت دینے کا ایک طریقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اداروں اور ملک کا تماشہ بن گیا ہے محض اس لئے کہ ایک شخص کو آپ اس کے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ آپ کی حکومت چلاتا ہے، وہ آپ کے مخالفین کی اکھاڑ پچھاڑ کرتا ہے۔ کیا قوم کو آپ نے بیوقوف سمجھ رکھا ہے؟

انہوں نے کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ عمران خان کا یہ آئینی استحقاق نہیں۔ نہ ہی انہوں نے یہ کہا کہ جو نئی تقرریاں ہیں، وہ بالکل درست ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ بدقسمتی سے عین اسی موقع پر کیپٹن صفدر نے ایک بیان میں یہ کہا کہ وزیر اعظم کا کوئی حق نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کریں اور اس مؤقف کو بھی مریم نواز کے کھاتے ڈال دیا گیا۔ حالانکہ مریم کی تنقید ایک بالکل مختلف پیرائے میں تھی۔ سینیئر صحافی اعزاز سید نے ٹوئیٹ کی کہ مریم نواز نے وزیر اعظم عمران خان پر شدید تنقید کی ہے اور جنرل باجوہ اور ان کے فوج میں تقرریوں اور تبادلوں کے فیصلوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہیں۔ اسی ٹوئیٹ کو ایک اور سینیئر صحافی مبشر زیدی نے قوٹ ٹوئیٹ کر کے لکھا 'بوٹ کو عزت دو'۔

ان دو صحافیوں کا بڑا احترام ہے اور ان کی رائے کو سبھی حلقے سنجیدہ لیتے ہیں لیکن بوٹ کو عزت دینے والے مؤقف سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ جنرل فیض حمید کا نام پہلی مرتبہ 2017 میں سامنے آیا جب فیض آباد دھرنے میں ہوئے حکومت اور تحریکِ لبیک پاکستان کے بلوائیوں کے درمیان معاہدے پر ان کا نام بطور گارنٹر لکھا گیا۔

پھر 2018 میں نواز شریف اور مریم نواز لندن میں موجود تھے جب نواز شریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پہلی بار جنرل فیض کا نام لیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کا نام لے کر ان کے حوالے سے صفائیاں پیش کی ہیں۔ کاش کہ یہ نوبت نہ آتی کہ جنرل فیض حمید کے حوالے سے فوجی امور کی بجائے سیاسی امور پہ صفائیاں پیش کی جاتیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جنرل فیض حمید اور ان کی ٹیم ہمارے لوگوں کو توڑنے میں ملوث ہے۔

https://twitter.com/SidrahMemon1/status/1016706938393022464

اسی دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے لوگوں نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو نواز شریف کے کیس سے دور رکھنے بارے احکامات دیے۔ راولپنڈی بار سے اس خطاب کے بعد جب انہیں سپریم جوڈیشل کونسل نے برطرف کر دیا تو اس فیصلے کے خلاف دائر اپنی درخواست میں انہوں نے یہ الزام دہرایا۔
راولپنڈی بار سے خطاب میں انہوں نے کیا کہا، سنیے:

https://twitter.com/Abrar_Geo/status/1020661197111250947

مریم نواز نے بھی شوکت صدیقی صاحب کی اپنی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست سے پیرے نقل کیے:

https://twitter.com/MaryamNSharif/status/1445338431199096833

اس کے بعد 2019 میں اپوزیشن نے مل کر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تو اس کے 65 اراکین نے ہاتھ کھڑے کیے لیکن جب ووٹ گنے گئے تو صادق سنجرانی کامیاب ٹھہرے۔ اس سے قبل طے کیا گیا تھا کہ اگر اپوزیشن کو کامیابی ملی تو وہ میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کے لئے نامزد کریں گے۔ تحریک کے ناکام ہونے کے بعد حاصل بزنجو سے پوچھا گیا کہ اس کی وجہ کیا تھی تو انہوں نے بھی جنرل فیض کا نام لیا۔

https://twitter.com/AWGoraya/status/1156924553056141312

فروری 2019 میں فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ آیا تھا۔ اس میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئی ایس آئی کے اس دھرنے میں کردار کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے۔ وہ بعد ازاں یہ دعویٰ بھی کر چکے ہیں کہ ان کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کی وجہ ہی فیض آباد دھرنا کیس میں ان کا فیصلہ تھا۔

پھر 2020 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک طویل خاموشی کے بعد پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ جلسے میں آرمی چیف کے ساتھ ساتھ جنرل فیض کا بھی نام لیا۔

https://twitter.com/SocialDigitally/status/1317213436162473984

تقریباً ایک سال کے بعد دوبارہ سے مریم نواز نے بھی جنرل فیض کا نام لے کر ان پر تنقید کی ہے۔ یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ جس شخص کے بارے میں ان کی جماعت کے سربراہ اور وہ خود یہ قضیہ کھڑا ہونے سے پہلے نام لے کر تنقید کر چکے ہیں، اب یکایک وہ اس پر اپنا مؤقف بدل لیں کیونکہ وزیر اعظم کے حامیوں کو یکایک کسی نے سویلین بالادستی کہنا سکھا دیا ہے؟ مریم نواز کا صحیح یا غلط مؤقف یہ ہے کہ جنرل فیض نے ان کے خلاف عدالتی فیصلے دلوائے، ان کے پارٹی رہنماؤں کو جیلوں میں ڈلوایا اور عمران خان کو الیکشن جتوانے کے لئے مکمل مدد کی۔ چنانچہ مریم نواز نے آئی ایس آئی سربراہ کے سیاسی کردار پر تنقید کی ہے، وزیر اعظم کے آئینی استحقاق پر نہیں۔ ایک اپوزیشن لیڈر کا وزیر اعظم کی خواہشات پر تنقید کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں، اور خواہشات بھی وہ جن کا اداروں کے استحکام سے کم اور وزیر اعظم کے ذاتی مفادات سے تعلق زیادہ ہے۔ وزیر اعظم ماضی میں بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔ وہ تو ریکارڈ پر ہیں کہ آرمی چیف کو توسیع نہیں ملنی چاہیے لیکن انہی کے دور میں پہلے آرمی چیف کو توسیع ملی اور اب وہ آئی ایس آئی چیف کو لمبے عرصے تک عہدے پر رکھنا چاہتے ہیں۔ ملک میں یہ چہ مگویئاں بھی شروع ہو چکی ہیں کہ اپوزیشن کی آرمی چیف سے ڈیل ہو گئی ہے لیکن فی الحال یہ محض افواہیں ہیں اور انہی افواہوں کے زیر اثر شاید سوشل میڈیا نے مریم نواز کے بیان کو خوب اچھالا اور بات کا بتنگڑ بنایا۔

اس سے انکار ممکن نہیں کہ فوج میں ایک اکیلا شخص کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا۔ اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہ محض آدھا سچ ہی کہلا سکتا ہے کہ جنرل فیض نے جو کچھ کیا، یہ ان کے ذاتی فیصلے تھے۔ لیکن اس وقت معاملہ یوں ہے کہ وزیر اعظم ایک ایسے اعلیٰ افسر کو سپورٹ کر رہے ہیں جن پر اپوزیشن سرِ بازار الزامات عائد کر چکی ہے۔ بحیثیت چیف ایگزیکٹو وزیر اعظم عمران خان کو قومی سلامتی کے اداروں پر تنقید روکنی چاہیے اور ان اداروں کو مکمل طور پر غیر متنازعہ بنانے کی سعی کرنی چاہیے۔ افسوس تو یہ ہے کہ پاکستان کے بااثر تجزیہ نگاروں کو یہ دکھائی نہیں دے رہا بلکہ وہ یہ توقع کر رہے ہیں کہ ہر حال میں ایک متنازع مؤقف کی حمایت کرنی چاہیے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں آج کل یہی بحث جاری ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر منتخب حکمران کا فیصلہ صرف اس لئے قبول کر لیا جائے کہ وہ سول حکمرانی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر بزرجمہروں کو مودی اور ٹرمپ جیسے منتخب لیڈرز پر تنقید نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ بھی سولین اتھارٹی کے تحت بدنامِ زمانہ فیصلے کرتے رہے ہیں۔ اور ہمارے یہاں تو یہ المیہ ہے کہ آدھا ملک خان صاحب کو منتخب ماننے سے ہی انکاری ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.