کل رات صحافی ظفر نقوی نے اپنی ٹویٹر پروفائل پر لکھا کہ تمام دوستوں کو مطلع کر رہا ہوں کہ اپریل 2020 میں دو مرتبہ مجھے میرے گھر سے اغوا کیا گیا، ہر بار 10 سے 12 گھنٹے بعد چھوڑا گیا، ابھی کچھ دیر قبل میرے دروازے پر پھر چند لوگ سادہ لباس میں آئے، میرے بیٹے سے میرے بارے دریافت کیا، بچے نے دروازہ نہیں کھولا، پھر چلے گئے۔
https://twitter.com/ZafarNaqviZN/status/1305130785243004928?s=20
ان کا ٘مزید کہنا تھا کہ اگر یہ ہراسمنٹ کا سلسلہ بند نہ ہوا،مجھے/میری فیملی کو کوئی نقصان پہنچا، اسکی ساری ذمہ داری حکومت پاکستان پر ہو گی، ریاست پاکستان پر ہو گی،میری 85 سالہ ماں کا یہ واضح پیغام ہے اگر ان کے بیٹے کو/فیملی کے کسی رکن کو نقصان پہنچایا گیا تو وہ شاہراہ دستور پر خودسوزی کرنے پر مجبور ہونگی۔
انہوں نےکہا کہ میں ایک محب وطن اور امن پسند پاکستانی ہوں، شعبہ صحافت سے منسلک ہوں، خدارا ہم پر اپنے ملک میں زمین تنگ نہ کی جائے، ہمیں جینے کا بنیادی حق دیا جائے، میرے تمام صحافی دوستوں کو اپریل 2020 میں میرے ساتھ پیش آنے والے ناخوشگوار واقعہ کے بارے اچھی طرح معلوم ہے۔ یہ چور دروازوں سے دھمکانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے،بتایا جائے یہ لوگ کون تھے،اگر وہ کسی ریاستی ادارے سے تھے تو رابطے کا قانونی اور آئینی طریقہ استعمال کیا جائے مجھے قانون اور آئین کیساتھ تعاون کرنے والا پائیں گے،لیکن اس طرح میری پوری فیملی کرب سے گزر رہی ہے،جو نامناسب ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ چند دنوں میں پاکستان میں صحافیوں پر غداری اور دیگر مقدمات بنا کر بھی انہیں ریاست کی طرف سے زدوکوب کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں پیمرا کے سابق دائریکٹر ابصار عالم پہ غداری کا مقدمہ اور صحافی بلال فاروقی کو پیکا PECA قانون کے ذریعے گرفتار کیا گیا ہے۔