Get Alerts

آرمی چیف شاہراہ ایم 8 کے ذریعے ہونے والی سمگلنگ کو رکوائیں

یہ مافیا انتہائی طاقتور ہے اور ان سمگلنگ کرنے والوں کی پشت پناہی سیاسی شخصیات اور کچھ طاقت ور سمجھے جانے والے لوگ کر رہے ہیں۔ صرف خضدار میں ہر گاڑی سے روزانہ کی بنیاد پر ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار تک روپے وصول کیے جاتے ہیں جو بیوروکریٹس، سیاست دانوں اور طاقت ور عناصر کی جیبوں میں جاتے ہیں۔

آرمی چیف شاہراہ ایم 8 کے ذریعے ہونے والی سمگلنگ کو رکوائیں

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 5 ستمبر کو تاجروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس ہوا۔ ڈان اخبار کی خبر کے مطابق اجلاس میں 50 سے زائد تاجر شریک تھے۔ اسی اجلاس کے تناظر میں کراچی میں کور کمانڈر 5 کے ساتھ فالو اپ اجلاس کا اہتمام کیا گیا۔ تاجروں کے ساتھ اجلاس کا لب لباب ہچکولے کھاتی ملکی معیشت کو سدھارنا تھا۔ اللہ تعالیٰ آرمی چیف کی ان کاوشوں کو بارآور بنا کر کامیابی سے ہمکنار کرے۔

اجلاس میں ملکی معیشت کو دیمک کی طرح کھانے والی کرپشن پر بات چیت ہوئی اور ملک کو نقصان پہنچانے والی درآمدات پر غور کیا گیا۔ تاجروں کی جانب سے اس بات پر زیادہ زور دیا گیا کہ ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ کی روک تھام ہو، بلوچستان سے ملحقہ ایرانی بارڈر سے سمگل ہونے والا پٹرول اور ڈیزل نا صرف بلوچستان بلکہ کراچی، اندرون سندھ اور پنچاب تک پہنچایا جاتا ہے۔ بلوچستان کی حد تک اگر چشم پوشی کی جائے تو یہ قابل فہم ہے کہ یہاں نہ کاروباری مواقع ہیں اور نا ہی روزگار۔ اس لیے یہاں کے باشندوں کا گزر بسر اور ذریعہ معاش ایرانی تیل پر منحصر ہے۔ ان کے محدود پیمانے پر کاروبار سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا کہ ان کی آڑ میں بڑے بڑے سمگلرز اور مافیاز کی وجہ سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ وہ مافیا جو کرپشن سے لے کر ٹیکس چوری، ایس او ایز کی نجکاری اور ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے میں ملوث ہیں وہ اپنی دولت کومزید بڑھانے کے لیے سمگلنگ جیسے دھندے کو چلا رہے ہیں۔

غریب بلوچ تو صرف حصولِ رزق کے واسطے اس کاروبار سے منسلک ہیں جو محدود پیمانے پر پٹرول بلوچستان کے ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے یا ایک ضلع سے دوسرے اضلاع میں لے جاتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو ایرانی چھوٹی گاڑیوں میں 4 ہزار کے قریب لیٹر لے جاتا ہے جو اسی علاقہ میں فروخت ہوتا ہے۔ دوسرا طبقہ سمگلرز مافیا ہیں۔ ان کے پاس بڑی دس ویلر گاڑیاں اسی دھندے کے لیے تیار کئی ہوئی ہیں جن ميں 65 ہزار سے 70 ہزار تک لیٹرز آتا ہے۔ یہ گاڑیاں دو راستوں سے جاتی ہیں۔ ایک بولان سے ہو کر سندھ اور پنچاب اور دوسرا راستہ پنجگور سے ہوتا ہوا نال خضدار سے ہو کر پھر ایم 8 شاہراہ استعمال کرتے ہوئے سندھ پہنچتا ہے۔

یہ مافیا انتہائی مضبوط ہے اور ان سمگلنگ کرنے والوں کی پشت پناہی سیاسی شخصیات اور کچھ طاقت ور سمجھے جانے والے لوگ کر رہے ہیں۔ صرف خضدار میں ہر ایک سے گاڑی سے روزانہ کی بنیاد پر ایک لاکھ سے لے کر ایک لاکھ بیس ہزار تک وصول کیے جاتے ہیں جو بیوروکریسی سمیت سیاست دانوں اور طاقت ور عناصر کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ آرمی چیف کے احکامات کے باوجود ایرانی تیل بڑی گاڑیوں میں اب بھی خضدار سے سمگل ہو رہا ہے۔ یہ کوئی پوشیدہ نہیں بلکہ سرعام اور دن دہاڑے ہو رہا ہے۔ محسوس یوں ہو رہا ہے کہ خضدار کے سمگلرز کچھ زیادہ طاقت ور ہیں کہ اب تک ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکی اور نا ہی سمگلنگ کو روکا گیا ہے کیونکہ اس سے قبل بھی ان سمگلرز کے خلاف کارروائی کی کوشش ہوئی لیکن ان کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکا۔

چار ماہ قبل یعنی 28/29 اپریل کی درمیانی شب ایف سی، قلات سکاؤٹس اور کسٹمز انٹیلی جنس نے خضدار میں ایک مشترکہ آپریشن میں یوریا کھاد اور چینی کی غیر قانونی ذخیرہ اندوزی کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے حجر اسود ہوٹل کے قریب ایک گودام میں موجود تقریباً 600 ٹن چینی اور یوریا کو سرکاری تحویل میں لے لیا تھا۔ اس کے علاوہ ارباب کمپلیکس کے قریب نئی تعمیر شدہ مارکیٹ میں 34 دکانوں سے بھی چینی اور یوریا کی تقریباً 14000 بوریاں برآمد کر کے سرکاری تحویل میں لے لی گئیں۔ اسی طرح ایک ہفتہ بعد دو مختلف کارروائیوں میں پانچ ہزار کے قریب چینی کی بوریاں برآمد ہوئی تھیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس دھندے میں ملوث شخصیات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ دو ماہ کی خاموشی کے بعد پھر سے انہی شخصیات نے سمگلنگ کا دھندہ شروع کر دیا ہے جو اب تک جاری ہے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ خضدار کے سمگلرز نا صرف خضدار سے سمگلنگ کر رہے ہیں بلکہ پورے بلوچستان میں سمگلرز کو ہر ضلع کی انتظامیہ کے ساتھ لائن کر کے سہولت کاری بھی کررہے ہیں جس کی مد میں روزانہ انہیں کروڑوں روپے مل رہے ہیں۔ جب تک خضدار سے براستہ ایم 8 شاہراہ سندھ سمگل ہونے والے ایرانی تیل کی روک تھام نہیں ہوتی اس وقت تک یہ آپریشن کامیاب نہیں ہو سکتا۔

گذشتہ دنوں انٹیلی جنس بیورو نے سمگلنگ کے حوالے سے ایک رپورٹ وزیرِ اعظم ہاؤس میں جمع کروائی ہے۔ اس رپورٹ میں ایرانی تیل اور حوالہ ہنڈی کے کاروبار کی تفصیلات کا ذکر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ 205 حوالہ ہنڈی ڈیلر پنجاب میں ہیں، کے پی میں 183 اور سندھ میں 176 ڈیلر حوالہ ہنڈی کا کاروبار کرتے ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 104 اور آزاد کشمیر میں 37 ڈیلر حوالہ ہنڈی میں ملوث ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں 17 ڈیلر حوالہ ہنڈی کا کاروبار کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران سے پاکستان کو سالانہ 2 ارب 81 کروڑ لیٹر سے زیادہ تیل سمگل ہوتا ہے۔ ایرانی تیل کی سمگلنگ سے سالانہ 60 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں 76 ڈیلرز تیل سمگلنگ میں ملوث ہیں جبکہ ایرانی تیل کی سمگلنگ میں 90 سرکاری حکام بشمول 29 سیاست دان ملوث ہیں۔

کراچی میں ایک نیوز کانفرنس میں بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے اقرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی تیل سے 5 ارب مالیت کا بزنس بن گیا ہے جبکہ ایرانی تیل کے حوالے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حوالہ اور ہنڈی ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ کوئٹہ کے ایک علاقے سے 1 کروڑ ڈالرز سے زیادہ ریکور کیے گئے ہیں۔ نگران وزیر اطلاعات بلوچستان نے مزید کہا کہ بارڈر مینجمنٹ پر کام کر رہے ہیں۔

لہٰذا اب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سپہ سالار صاحب ایم 8 شاہراہ پر ہونے والی سمگلنگ کو بند کرنے کے احکامات صادر کریں اور ان طاقت ور سمجھے جانے والے عناصر کو نشان عبرت بنائیں کہ جو عرصہ دراز سے اس دھندے میں ملوث ہو کر ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا چکے ہیں۔

محمد اقبال مینگل گذشتہ چھ سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں ۔وہ خضدار پریس کلب کے جنرل سیکریٹری ہیں اورچینل 92 نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔