عمران خان کی نااہلی نوشتۂ دیوار ہے؛ چودھری سالک

عمران خان کی نااہلی نوشتۂ دیوار ہے؛ چودھری سالک
چودھری سالک حسین پاکستان مسلم لیگ ق کے سینیئر نائب صدر ہیں اور وفاقی حکومت میں وزیر برائے سرمایہ کاری بورڈ ہیں۔ دی فرائیڈے ٹائمز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں نرم گفتار چودھری سالک حسین نے عمران خان کی سیاست، آئندہ انتخابات اور چودھری خاندان کی سیاست سمیت متعدد معاملات سے متعلق سخت مؤقف اختیار کیا۔

دی فرائیڈے ٹائمز کے نمائندے حسن نقوی نے ان سے گفتگو کا آغاز عمران خان کی سیاست پر بات چیت سے کیا۔ سالک حسین کا کہنا تھا کہ 'آپ دیکھیں گے کہ عمران خان فارن فنڈنگ کیس، ٹیریان وہائٹ کیس اور دوسرے زیر سماعت مقدمات میں نااہل قرار دے دیے جائیں گے'۔

سالک حسین اگرچہ وکیل تو نہیں ہیں مگر انہوں نے عمران خان کے وکیلوں کی جانب سے عدالتوں میں مقدمات کو طول دینے والے ہتھکنڈے آزمائے جانے سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ 'جس طرح عمران خان ان مقدمات کا سامنا کرنے سے بھاگ رہے ہیں اور مبہم بیانات دے رہے ہیں ان سے بہت کچھ واضح ہوتا ہے۔ ٹیریان خان کیس میں عمران خان کے وکیلوں نے استدعا کی کہ چونکہ عمران خان اس وقت پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہیں تو یہ مقدمہ قابل سماعت نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپیل کی کہ ٹیریان وہائٹ کیس میں ان کی نااہلی کے مقدمے کو خارج کر دیا جائے'۔

عمران خان کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس کو جن پینتروں کی مدد سے 9 سال تک لٹکایا گیا، انہیں یاد کرتے ہوئے چودھری سالک بولے؛ 'ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہو رہا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مقدمے میں نااہل ہو جائیں گے اور یہ حقیقت اب نوشتۂ دیوار بن چکی ہے'۔

کیا انتخابات وقت پر ہوں گے؟

عمران خان کتنے دنوں میں نااہل ہو جائیں گے، چودھری سالک نے یقینی طور پر تو کچھ نہیں بتایا تاہم انہوں نے پورے وثوق کے ساتھ یہ ضرور بتایا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات باقی صوبوں اور مرکز کے انتخابات کے ساتھ ایک ہی مرتبہ منعقد کروائے جائیں گے۔

لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کی جانب سے ضمنی انتخابات 90 دن میں کروانے کے فیصلے سے متعلق انہوں نے کہا؛ 'انتخابات کروانے کی ذمہ داری لاہور ہائی کورٹ کی نہیں بلکہ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر ریاستی محکموں کا استحقاق ہے۔ ان اداروں سے مشاورت کیے بغیر انتخابات منعقد نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ فیصلہ کرنا انہی اداروں کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کب تک انتخابات کروانے کے لئے تیار ہوں گے۔

فواد چودھری، شیخ رشید اور پی ٹی آئی کے اتحادیوں اور رہنماؤں کی گرفتاریوں سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ لوگ دوسروں کو جو کڑوی گولی کھلاتے رہے ہیں اب اسی گولی کا ذائقہ خود چکھ رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے دور میں بڑے فخر کے ساتھ سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بنواتے رہے ہیں جیسے انہوں نے رانا ثناء اللہ کے خلاف 15 کلوگرام ہیروئن کا کیس بنایا تھا اور مریم نواز تک کو جیل بھیجا تھا۔ یہ کہتے ہوئے چودھری سالک نے اضافہ کیا کہ وہ اس بات کی ہرگز وکالت نہیں کرتے کہ فواد چودھری، شیخ رشید اور پی ٹی آئی نے دوسروں کے ساتھ جو سلوک کیا ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک روا رکھا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی دشمنیاں ختم ہو جانی چاہئیں اور پی ڈی ایم حکومت کو وہی کچھ نہیں کرنا چاہیے جو پی ٹی آئی اپنے دور حکومت میں سیاسی مخالفین کے ساتھ کرتی رہی ہے۔

خاندان میں اختلافات

چودھری خاندان کی سیاست سے متعلق گفتگو کے دوران چودھری سالک خاصے محتاط نظر آئے اور مناسب الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنا مطمع نظر پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ چودھری پرویز الہیٰ کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ جماعت کے مرکزی صدر کو پارٹی سے نکال سکیں۔ پارٹی قواعد کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں پرویز الہیٰ، وجاہت حسین، مونس الہیٰ اور حسین الہیٰ کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پرویز الہیٰ نے جس طرح پاکستان مسلم لیگ ق کو پاکستان تحریک انصاف میں ضم کرنے کی بات کی تو اس پر انہیں پارٹی کی جانب سے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے باوجود پرویز الہیٰ، وجاہت حسین، مونس الہیٰ اور حسین الہیٰ اگر چودھری شجاعت حسین سے معافی مانگ لیں تو وہ ان سب کو معاف کر دیں گے۔ لیکن اگر ممبران پارلیمنٹ مونس الہیٰ اور حسین الہیٰ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو پارٹی انہیں پارلیمنٹ سے فارغ کروا دے گی۔

چودھری سالک کا کہنا تھا کہ آئندہ انتخابات میں وہ گجرات میں اپنے آبائی حلقے سے حصہ لیں گے جو ان کے والد چودھری شجاعت حسین کا حلقہ ہے۔ 2018 میں اس حلقے سے مونس الہیٰ کامیاب ہوئے تھے۔ روایت یہ ہے کہ خاندان کے لوگ ایک ہی حلقے سے ایک دوسرے کی مخالفت میں انتخاب نہیں لڑتے۔ اس مرتبہ میں اس حلقے سے کھڑا ہوں گا، دیکھتے ہیں کہ مونس الہیٰ اس حلقے سے میرے خلاف کھڑا ہوتا ہے یا وہ چکوال کے حلقہ این اے 65 سے انتخاب میں حصہ لیتا ہے جہاں سے 2018 میں مجھے منتخب کیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ آخری مرتبہ پرویز الہیٰ اور وجاہت حسین سے ان کی ملاقات 17 جولائی 2022 کے ضمنی انتخابات کے بعد ہوئی تھی جب انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے تھے اور دونوں ہمارے گھر آئے تھے۔ اس موقع پر ہم نے چودھری پرویز الہیٰ کو مبارک باد دی تھی کیونکہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پرویز الہیٰ نے چودھری سالک اور چودھری شافع کو اپنی حلف برداری تقریب میں آنے کے لئے مدعو کیا تھا تاہم میں نے تقریب میں آنے کو اس بات سے مشروط کر دیا کہ پہلے چودھری وجاہت اپنے اس بیان کو واپس لیں جس میں انہوں نے مجھ پر الزام لگایا تھا کہ میں نے آصف علی زرداری سے ڈالروں کا مطالبہ کیا تھا۔ میری اس شرط کو چودھری پرویز الہیٰ نے سنی ان سنی کر دیا۔

'مونس نے کہا چودھری شجاعت حسین کا سافٹ ویئر اپڈیٹ ہو چکا ہے'

اس کے بعد تشویش ناک لہجے میں انہوں نے کہا کہ 'ہم نے کبھی ان کے خلاف بیان نہیں دیے، یہ کام مونس الہیٰ نے شروع کیا جب انہوں نے کہا کہ چودھری شجاعت حسین کا سافٹ ویئر اپڈیٹ ہو چکا ہے'۔ اس طرح کے بیانات انہوں نے ہمارے خلاف دیے، میں نے یا میرے والد چودھری شجاعت نے ان کے خلاف کبھی اس طرح کی بات نہیں کی۔ میں نے اور چودھری شجاعت نے یہ بات چودھری پرویز الہیٰ کے گوش گزار بھی کی کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ، مگر خاندان کے لوگ ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرنے سے گریز کریں۔ سیاسی اتحادیوں کو خوش کرنے کے لئے اتنا نیچے نہیں گر جانا چاہیے۔

چودھری سالک نے یہ بھی بتایا کہ چودھری پرویز الہیٰ نے میرے والد چودھری شجاعت حسین سے گزارش کی تھی کہ وہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو قائل کریں کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے پی ڈی ایم اپنا امیدوار چودھری پرویز الہیٰ کو بنائے کیونکہ پرویز الہیٰ کو یقین تھا کہ عمران خان انہیں اپنی پارٹی کی جانب سے وزارت اعلیٰ کا امیدوار نہیں بنائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ جب پی ڈی ایم کے ساتھ سارے معاملات طے پا گئے تو اگلے روز چودھری پرویز الہیٰ بنی گالا چلے گئے اور ہمیں یہ یقین دہانی کروانے کے باوجود کہ وہ پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے ہیں، عمران خان کے ساتھ مل گئے۔ پرویز الہیٰ نے اپنے وعدے سے مُکر کر چودھری شجاعت کو بہت مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا اور ہمارے پاس پی ڈی ایم کے ساتھ اپنا کیا ہوا وعدہ نبھانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔

حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔ آج کل بطور پولیٹیکل رپورٹر ایک بڑے نجی میڈیا گروپ کے ساتھ منسلک ہیں۔